سورة محمد - آیت 1

الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جن لوگوں نے کفر (١) کی راہ اختیار کی، اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا، اللہ نے ان کے اعمال برباد کر دئیے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَلَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ....: چونکہ اس سورت کا اکثر حصہ مشرکین کے خلاف جنگ کے لیے ابھارنے پر مشتمل ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورت کا آغاز کفار پر اپنے غضب اور ایمان والوں پر اپنی رحمت کے اظہار کے ساتھ کیا ہے، تاکہ ان کے کفر اور اللہ کی راہ سے روکنے کے جرم کی بنا پر مسلمانوں کو ان سے لڑنے کی ترغیب دی جا سکے۔ چنانچہ اس تمہید کے بعد فرمایا: ﴿فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ﴾ [ محمد : ۴ ] ’’تو جب تم ان لوگوں سے ملو جنھوں نے کفر کیا تو خوب گردنیں مارنا ہے۔‘‘ صَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ: ’’صَدُّوْا‘‘ ’’صَدَّ يَصُدُّ‘‘(ن)لازم بھی آتا ہے ’’اعراض کرنا‘‘ اس کا مصدر ’’صُدُوْدًا‘‘ہے اور متعدی بھی’’روکنا‘‘اس کا مصدر ’’صَدًّا ‘‘ہے، ، یہاں دوسرا معنی مراد ہے، کیونکہ خود اعراض کرنے کی بات تو ’’الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ‘‘ میں آ گئی، بلکہ کفر اعراض سے زیادہ سخت ہے۔ اس لیے مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے ایمان لانے سے انکار کر دیا اور دوسرے لوگوں کو بھی اللہ کے راستے یعنی اسلام قبول کرنے سے روکا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال ضائع اور برباد کر دیے۔ یعنی کافر رہتے ہوئے ان لوگوں نے جو بظاہر اچھے کام کیے تھے، جیسے صدقہ و خیرات، مہمان نوازی، صلہ رحمی، خانہ کعبہ کی مرمت اور اس کا حج، مظلوم کی مدد وغیرہ، ان پر اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کو کوئی اجر نہیں ملے گا، کیونکہ ایمان کے بغیر کسی عمل کی کوئی قیمت نہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ فرقان (۲۳) کی تفسیر۔ کافروں کے اعمال برباد کرنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے وہ تمام اعمال یعنی سازشیں اور منصوبے ناکام کر دیے جو وہ اسلام کو نیچا دکھانے کے لیے کام میں لاتے تھے۔ صَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَضَلَّ اَعْمَالَهُمْ: اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے کی کئی صورتیں ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی کسی کو زبردستی ایمان لانے سے روک دے۔ دوسری یہ کہ وہ ایمان لانے والوں پر ایسا ظلم و ستم ڈھائے کہ ان کے لیے ایمان پر قائم رہنا مشکل ہو جائے اور ان کی حالت زار دیکھ کر ایمان لانے کا ارادہ رکھنے والے ایمان لانے کی جرأت نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے لفظ ’’فتنہ‘‘ استعمال فرمایا ہے۔ تیسری یہ کہ وہ مختلف طریقوں سے اسلام کے خلاف لوگوں کو ورغلائے اور ان کے دلوں میں ایسے وسوسے ڈالے کہ وہ دین اسلام سے بدظن ہو جائیں۔ چوتھی یہ کہ ہر کافر اپنے بچوں اور زیر کفالت لوگوں کی تربیت کفر پر کرتا ہے جس سے ان کے لیے دینِ حق قبول کرنا مشکل ہوتا ہے، اس طرح وہ اللہ کے راستے سے روکنے کا مجرم بنتا ہے۔ اللہ کے راستے سے روکنے کی ان تمام صورتوں کو ختم کرنے کے لیے کفار سے لڑنے کا حکم دیا۔