وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَلَيْسَ هَٰذَا بِالْحَقِّ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَرَبِّنَا ۚ قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ
اور جس دن اہل کفر آگ کے سامنے لائے جائیں گے ( تو ان سے پوچھا جائے گا) کیا یہ حقیقت ( ٢٢) نہیں ہے تو وہ کہیں گے، ہاں، ہمارے رب کی قسم ! اللہ کہے گا تو پھر اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزا چکھتے رہو
1۔ وَ يَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَلَى النَّارِ ....: قیامت کے حق ہونے کو دلیل کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد اس دن کا ایک منظر پیش فرمایا، یعنی وہ دن یاد کرو جب ان لوگوں کو جو قیامت اور جہنم کا انکار کرتے تھے آگ پر پیش کیا جائے گا (اور کہا جائے گا) کیا یہ حق نہیں؟ سوال کا مقصد پوچھنا نہیں ہو گا بلکہ انھیں ذلیل کرنا اور وہ دنیا میں جہنم اور قیامت کا جو مذاق اڑاتے رہے اس کے بدلے میں ان کا مذاق اڑانا ہو گا۔ جہنم کے عذاب کے ساتھ ملامت، ڈانٹ ڈپٹ اور طنز و تہکّم کا یہ عذاب بجائے خود بہت بڑی سزا ہو گی، دوسری جگہ فرمایا: ﴿يَوْمَ يُدَعُّوْنَ اِلٰى نَارِ جَهَنَّمَ دَعًّا (13) هٰذِهِ النَّارُ الَّتِيْ كُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُوْنَ (14) اَفَسِحْرٌ هٰذَا اَمْ اَنْتُمْ لَا تُبْصِرُوْنَ ﴾ [الطور : ۱۳ تا ۱۵ ] ’’جس دن انھیں جہنم کی آگ کی طرف دھکیلا جائے گا، سخت دھکیلا جانا۔ یہی ہے وہ آگ جسے تم جھٹلاتے تھے۔ تو کیا یہ جادو ہے، یا تم نہیں دیکھ رہے؟‘‘ 2۔ قَالُوْا بَلٰى وَ رَبِّنَا: دنیا میں جس جہنم کا انکار کرتے تھے اور اس کا مذاق اڑاتے تھے اب اس کا اقرار ہی نہیں کریں گے بلکہ اس کے حق ہونے پر قسم کھائیں گے، کیونکہ اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں ہو گا۔ 3۔ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ: مگر اس وقت کا اقرار و اعتراف انھیں کچھ فائدہ نہیں دے گا، بلکہ ان سے کہا جائے گا کہ اگر یہ حق ہے تو پھر اس حق کو نہ ماننے کی وجہ سے اس کی سزا کا مزہ چکھو۔