أُولَٰئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجَاوَزُ عَن سَيِّئَاتِهِمْ فِي أَصْحَابِ الْجَنَّةِ ۖ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ
یہی وہ لوگ ہیں جن کی جانب سے ان کے بہترین نیک کاموں کو ہم قبول کرتے ہیں، اور ان کی خطاؤں کو ہم در گذر کرتے ہیں، یہ جنتی لوگ ہیں، اس وعدہ صادق کے مطابق جو ان سے (دنیا میں) کیا جاتا تھا
1۔ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا ....: آیت کے ضمن میں یہ مفہوم موجود ہے کہ ماں باپ کے ساتھ احسان، ان کے لیے دعا، اللہ تعالیٰ سے شکر اور عملِ صالح کی توفیق مانگنا اور اولاد کے لیے اصلاح کی دعا انسان کے سب سے اچھے اعمال میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو لوگ یہ عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے اس بہترین عمل کو قبول فرمائے گا اور ان کی برائیوں سے درگزر فرمائے گا۔ 2۔ فِيْ اَصْحٰبِ الْجَنَّةِ: يہ ’’ اُولٰٓىِٕكَ‘‘ سے حال کی جگہ میں ہے : ’’أَيْ كَائِنِيْنَ فِيْ أَصْحَابِ الْجَنَّةِ‘‘ بہترین اعمال کی قبولیت اور گناہوں سے درگزر کے ساتھ یہ تیسرا انعام ہے کہ انھیں اصحاب الجنہ میں شامل کیا جائے گا جو بہترین ساتھی ہیں۔ کیونکہ ان میں شامل ہونا بجائے خود بہت بڑا اعزاز ہے، جس کی دعا انبیاء علیھم السلام کرتے رہے ہیں، جیسا کہ سلیمان علیہ السلام کی دعا ہے: ﴿ وَ اَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ﴾ [النمل:۱۹]’’اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما۔‘‘ یوسف علیہ السلام کی دعا ہے: ﴿تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ ﴾ [یوسف:۱۰۱] ’’مجھے مسلم ہونے کی حالت میں فوت کر اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔‘‘ اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت کے الفاظ ہیں : (( فِي الرَّفِيْقِ الْأَعْلٰی )) [ بخاري، المغازي، باب مرض النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم و وفاتہ:۴۴۳۶ ] ’’مجھے بلند ترین ساتھیوں میں شامل فرما۔‘‘ [ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُمْ بِفَضْلِکَ وَ رَحْمَتِکَ ] 3۔ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِيْ كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ: یعنی اس سچے وعدے کے مطابق جو قرآن و حدیث میں والدین سے احسان کرنے والوں کے ساتھ کیا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔