وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھے برتاؤ (١٢) کا حکم دیا ہے، اس کی ماں اسے تکلیف کے ساتھ (پیٹ میں) ڈھوئے پھری، اور تکلیف کے ساتھ اسے جنا، اور اس کے حمل، اور اس کے دودھ چھوڑنے میں تیس مہینے لگے، یہاں تک کہ جب وہ بھرپور جوان ہوگیا، اور چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا، تو کہا، میرے رب ! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے ماں باپ کو دیا ہے، اور ایسے نیک اعمال کروں جنہیں تو پسند کرتا ہے، اور تو میری اولاد کو نیک چلن بنا دے، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں، اور بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں
1۔ وَ وَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسٰنًا: سورت کے شروع سے یہاں تک اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی نازل کردہ کتاب کے حق ہونے اور اس کی عبادت پر استقامت کا بیان فرمایا، اب ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کا بیان ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ کے حق توحید اور اخلاصِ عبادت کے ساتھ ماں باپ کے حق کا ذکر فرمایا ہے۔ اس جملے کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۸۳)، بنی اسرائیل (۲۳، ۲۴)، عنکبوت (۸) اور سورۂ لقمان (۱۴، ۱۵)۔ 2۔ حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّ وَضَعَتْهُ كُرْهًا: ’’كَرِهَ يَكْرَهُ كَرْهًا وَ كُرْهًا وَ كَرَاهَةً وَ كَرَاهِيَةً‘‘ (ع) ’’ اَلشَّيْءَ‘‘ یہ ’’أَحَبَّ الشَّيْءَ‘‘ کی ضد ہے، ناپسند کرنا۔ ’’اَلْكَرْهُ ‘‘ اور ’’اَلْكُرْهُ ‘‘ کا معنی انکار اور مشقت بھی ہے۔ ’’ كُرْهًا ‘‘ حال ہے : ’’أَيْ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ ذَاتَ كُرْهٍ‘‘ یعنی اس کی ماں نے اسے اس حالت میں اٹھائے رکھا کہ وہ ناگواری یا مشقت والی تھی۔ یا اس سے پہلے حرف جار باء محذوف ہے، جس کے حذف کرنے سے اس پر نصب آیا ہے : ’’أَيْ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ بِكُرْهٍ‘‘ یعنی اس کی ماں نے اسے ناگواری یا مشقت کے ساتھ اٹھایا، ’’ وَ وَضَعَتْهُ كُرْهًا ‘‘ اور اسے ناگواری اور مشقت کے ساتھ جنا۔ 3۔ آیت میں اگرچہ ماں اور باپ دونوں کے ساتھ احسان کی تاکید کی گئی ہے، مگر ماں کی تین قربانیوں کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے۔ پہلی یہ کہ وہ حمل کی پوری مدت اسے اپنے پیٹ میں اٹھائے پھرتی ہے، اس دوران اس پر کئی ناگوار حالتیں گزرتی ہیں، مثلاً متلی، بے چینی، تھکاوٹ، بیماری کی سی حالت، دن بدن بڑھتی ہوئی کمزوری، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا: ﴿حَمَلَتْهُ اُمُّهٗ وَهْنًا عَلٰى وَهْنٍ ﴾ [ لقمان : ۱۴ ] ’’اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری کی حالت میں اٹھائے رکھا۔‘‘ خصوصاً حمل کے آخری ایام میں تو یہ بوجھ اس کی جان کا روگ بنا ہوتا ہے۔ حقیقت ہے کہ کوئی شخص اگر اپنی ماں کا حق ادا کرنے کے لیے اسے کمزوری کی حالت میں اٹھا کر لیے پھرے تب بھی وہ اس کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ کہاں پوری مدتِ حمل مسلسل اپنے شکم میں اٹھائے پھرنا اور کہاں کسی وقت کچھ دیر کے لیے اٹھا لینا۔ پھر ماں ان سب ناگوار کیفیتوں کو آنے والے فرزند کی امید پر خوشی سے برداشت کرتی ہے، جب کہ اولاد اسے بوجھ سمجھ کر یا صرف اللہ کا حکم سمجھ کر اٹھاتی ہے، دونوں میں کوئی نسبت ہی نہیں۔ دوسری قربانی وضع حمل کا نہایت تکلیف دہ مرحلہ ہے جس میں اس کی جان داؤ پر لگی ہوتی ہے، کتنی مائیں اس مرحلے میں جان سے گزر جاتی ہیں، وہ اپنے فرزند کی امید پر اس ناگوار مرحلے کو بھی برداشت کرتی ہے۔ تیسری قربانی دو سال تک اس کی پرورش، اپنے آرام کی قربانی دے کر اس کے لیے ہر آسائش مہیا کرنا اور اپنا خون دودھ کی صورت میں دو سال تک پلاتے جانا ہے۔ ان تین قربانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ماں کا حق باپ سے تین گنا زیادہ رکھا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، کہنے لگا : (( يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِيْ؟ قَالَ أُمُّكَ، قَالَ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ ثُمَّ أُمُّكَ، قَالَ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ ثُمَّ أُمُّكَ، قَالَ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ ثُمَّ أَبُوْكَ )) [ بخاري، الأدب، باب من أحق الناس بحسن الصحبۃ : ۵۹۷۱ ] ’’یا رسول اللہ! لوگوں میں سے میرے حسن محبت کا زیادہ حق دار کون ہے ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمھاری ماں۔‘‘ اس نے کہا : ’’پھر کون؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پھر تمھاری ماں۔‘‘ اس نے کہا : ’’ پھر کون؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پھر تمھاری ماں۔‘‘ اس نے کہا : ’’پھر کون؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (چوتھی مرتبہ) فرمایا : ’’ پھر تمھارا باپ۔‘‘ 4۔ وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا: اس آیت کو اور سورۂ لقمان کی آیت (۱۴): ﴿ وَ فِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ﴾ (اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے) اور سورۂ بقرہ کی آیت (۲۳۳): ﴿ وَ الْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ ﴾ (اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں، اس کے لیے جو چاہے کہ دودھ کی مدت پوری کرے) ان تینوں آیتوں کو ملانے سے ثابت ہوتا ہے کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے، کیونکہ تیس ماہ میں سے دودھ پلانے کی مدت دو سال نکالی جائے تو باقی چھ ماہ بچتے ہیں۔ ابن کثیر نے سورۂ زخرف کی آیت (۸۱): ﴿ قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ﴾ کی تفسیر میں ابن جریر طبری سے نقل فرمایا ہے : ((عَنْ بَعْجَةَ بْنِ زَيْدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ امْرَأَةً مِّنْهُمْ دَخَلَتْ عَلٰی زَوْجِهَا، وَ هُوَ رَجُلٌ مِّنْهُمْ أَيْضًا، فَوَلَدَتْ لَهُ فِيْ سِتَّةِ أَشْهُرٍ، فَذَكَرَ ذٰلِكَ زَوْجُهَا لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ فَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُرْجَمَ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ عَلِيُّ بْنُ أَبِيْ طَالِبٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ فَقَالَ إِنَّ اللّٰهَ تَبَارَكَ وَتَعَالٰی يَقُوْلُ فِيْ كِتَابِهِ: ﴿وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا ﴾ وَ قَالَ: ﴿ وَ فِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ ﴾ قَالَ فَوَاللّٰهِ! مَا عَبِدَ عُثْمَانُ أَنْ بَعَثَ إِلَيْهَا تُرَدَّ )) [الطبري : ۲۰ ؍۶۵۷، ح : ۳۱۲۷۰ ] ’’بعجہ بن یزید جہنی کہتے ہیں کہ ان کے قبیلے کی ایک عورت اپنے خاوند کے پاس آئی، وہ آدمی بھی اسی قبیلے کا تھا، تو اس عورت نے چھ مہینے میں بچے کو جنم دیا۔ اس کے خاوند نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے اس بات کا ذکر کیا تو انھوں نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ اس پر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہا : ’’اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں: ﴿ وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا ﴾ (کہ اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے) اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَ فِصٰلُهٗ فِيْ عَامَيْنِ ﴾ (اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے)۔‘‘ بعجہ بن یزید کہتے ہیں : ’’تو اللہ کی قسم! عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کی بات کا کوئی انکار نہیں کیا اور فوراً آدمی بھیجا کہ اسے واپس لایا جائے۔‘‘ ابن کثیر کے محقق حکمت بن بشیر نے فرمایا، اس کی سند صحیح ہے۔ یہ استدلال نہایت مضبوط ہے، علی اور عثمان رضی اللہ عنھما کے علاوہ صحابہ کی ایک جماعت نے ان کی موافقت کی ہے۔ (ابن کثیر) ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا : ’’عورت جب نو (۹) ماہ میں بچہ جنے تو اسے اکیس (۲۱) ماہ دودھ پلانا کافی ہے، جب سات (۷) ماہ میں جنے تو اسے تیئیس (۲۳) ماہ دودھ پلانا کافی ہے اور جب چھ (۶) ماہ میں جنے تو پورے دو سال دودھ پلائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَ حَمْلُهٗ وَ فِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا ﴾ ’’اس کے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے۔‘‘ [ ابن أبي حاتم : ۱۸۵۶۷۔ ابن کثیر وقال المحقق سندہ حسن ] 5۔ حَتّٰى اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ بَلَغَ اَرْبَعِيْنَ سَنَةً ....: یہاں سے اللہ تعالیٰ نے والدین کا حق پہچاننے کے اعتبار سے دو قسم کے آدمیوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اس آیت میں اس آدمی کا ذکر ہے جو اپنی جوانی کو پہنچتا ہے تو اپنے والدین کا حق پہچانتا ہے اور یہ پہچان اسے اپنے اصل مالک اور مربی کی پہچان اور اس کا شکر ادا کرنے تک پہنچا دیتی ہے۔ ’’ بَلَغَ اَشُدَّهٗ ‘‘ کی تشریح کے لیے دیکھیے سورۂ یوسف (۲۲) کی تفسیر۔ اس سلسلے میں چالیس سال کی عمر کا ذکر بلوغت کی آخری حد کے طور پر فرمایا ہے، کیونکہ اس عمر میں آدمی کی قوتیں اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہیں۔ اس کے بعد انحطاط کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس آیت میں ہر جوان کو عموماً اور چالیس برس والے آدمی کو خصوصاً خبردار کیا گیا ہے کہ اسے چاہیے کہ اپنی پرورش کرنے والے والدین کا اور اپنے اور اپنے والدین کے اصل مربی اور مالک کا حق پہچانے اور اپنے اور اپنے والدین پر اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لیے اس سے توفیق مانگتا رہے، کیونکہ اس کی توفیق کے بغیر کوئی نیکی نہیں ہو سکتی اور ساتھ ہی اپنی اولاد کی اصلاح کی دعا بھی کرتا رہے۔ اس طرح والدین کے حقوق کی پہچان اور ان کی ادائیگی اس کے لیے اپنے رب کے حقوق کی پہچان، اس کی توحید پر استقامت، اس کی عبادت میں اخلاص اور اس کی نعمتوں پر شکر کا ذریعہ بن جائے گی، جو انسان کی زندگی کا اصل مقصود ہے۔ 6۔ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ: عمل اگرچہ وہی صالح ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہو اور اخلاص کے ساتھ ہو، مگر اخلاصِ نیت اور ریا سے پاک ہونے کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے اس کا الگ بھی ذکر فرمایا۔ یعنی مجھے ایسے عمل کی توفیق دے جو ظاہر میں درست یعنی تیری کتاب اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو اور حقیقت میں بھی تیری رضا کے مطابق اور تیری جناب میں قبول ہونے کے لائق ہو، یعنی اخلاصِ نیت پر مبنی اور ریا سے پاک ہو۔ 7۔ وَ اَصْلِحْ لِيْ فِيْ ذُرِّيَّتِيْ: اس دعا میں دو الفاظ قابل غور ہیں، ایک ’’ لِيْ ‘‘ اور دوسرا ’’ فِيْ ‘‘۔ ’’ اَصْلِحْ لِيْ ‘‘ (میرے لیے اصلاح فرما دے) کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ایسی اصلاح فرما جس کا فائدہ مجھے بھی حاصل ہو۔ ’’ فِيْ ذُرِّيَّتِيْ ‘‘ یہاں بظاہر ’’أَصْلِحْ لِيْ ذُرِّيَّتِيْ‘‘ (میرے لیے میری اولاد کی اصلاح فرما دے) کافی تھا، جیسا کہ فرمایا: ﴿وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ ﴾ [ الأنبیاء : ۹۰ ] ’’اور ہم نے اس کے لیے اس کی بیوی کی اصلاح فرما دی۔‘‘ مگر ’’ فِيْ ‘‘ لانے کا مطلب یہ ہے کہ میری اولاد میں اصلاح کا عمل جاری و ساری فرما دے جو آگے تک چلتا رہے، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کے متعلق فرمایا: ﴿ وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً فِيْ عَقِبِهٖ﴾ [ الزخرف : ۲۸ ] ’’اور اس نے اس (توحید کی بات) کو اپنے پچھلوں میں باقی رہنے والی بات بنا دیا۔‘‘ 8۔ اِنِّيْ تُبْتُ اِلَيْكَ وَ اِنِّيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ: یعنی میں اپنی جوانی کی سرکشی اور جہالت سے اور تیری ہر قسم کی نافرمانی سے باز آ یا اور میں تیرے مکمل فرماں برداروں سے ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ خصوصی اہتمام کے ساتھ چالیس (۴۰) برس کی عمر میں اور اس کے بعد توبہ کی تجدید کرتے رہنا چاہیے۔ 9۔ یہ دعا اولاد کی اصلاح کے لیے اکسیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود اس کی تعلیم دی ہے اور یہ مقبول دعاؤں میں سے ہے، کیونکہ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کے قبول ہونے کی بشارت دی ہے، فرمایا: ﴿ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ ﴾ ’’ہم ان سے قبول کرتے ہیں۔‘‘ جیسا کہ سورۂ فاتحہ ہے اور سورۂ بقرہ کی آخری آیات والی دعائیں ہیں۔ اس لیے کسی صاحبِ اولاد کو، خصوصاً جو چالیس سال یا اس سے اوپر ہو اسے اس دعا سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ تفسیر قرطبی میں ہے کہ مالک بن مغول نے طلحہ بن مصرف کے پاس اپنے بیٹے کی شکایت کی تو انھوں نے فرمایا : ’’اس کے لیے اس دعا سے مدد حاصل کرو۔‘‘ [ قرطبي : ۱۶ ؍۱۹۵ ]