وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ
اور جب ان کے سامنے ہماری صریح آیتوں (٦) کی تلاوت کی جاتی تھی، تو حق (یعنی قرآن) کا انکار کرنے والوں نے، جب وہ حق ان کے پاس آچکا، کہنے لگے کہ یہ تو کھلا جادو ہے
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ ....: قرآن پر ایمان نہ لانے کے لیے وہ جو بہانے کرتے تھے ان کا ذکر ہو رہا ہے۔ اختصار کا تقاضا یہ تھا کہ کہا جاتا : ’’ وَ إِذَا تُتْلٰي عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ ‘‘ (جب ان کے سامنے ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں یہ کھلا جادو ہے) مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ اٰيٰتُنَا بَيِّنٰتٍ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلْحَقِّ لَمَّا جَآءَهُمْ هٰذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ﴾ ’’اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا حق کے بارے میں، جب وہ ان کے پاس آیا، کہتے ہیں یہ کھلا جادو ہے۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اختصار کے بجائے تین باتوں ’’ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ‘‘، ’’ لِلْحَقِّ ‘‘ اور ’’ لَمَّا جَآءَهُمْ ‘‘ کی صراحت فرمائی۔ ’’ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ‘‘ کا مقصد یہ ہے کہ ان کے جھٹلانے کا اصل باعث ان کا کفر و انکار ہے، جب کوئی طے کر لے کہ ماننا ہی نہیں تو بڑی سے بڑی دلیل بھی اس کے لیے بے کار ہے، جیسا کہ فرمایا: ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۶ ] ’’بے شک جن لوگوں نے کفر کیا ان پر برابر ہے، خواہ تو نے انھیں ڈرایا ہو یا انھیں نہ ڈرایا ہو، ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘ ’’ لِلْحَقِّ ‘‘ کہہ کر آیات بینات کی عظمت و اہمیت اور کفار کی بدنصیبی نمایاں فرمائی کہ دیکھو وہ اس چیز کو جادو کہہ رہے ہیں جو حق ہے، جب کہ جادو سراسر باطل ہوتا ہے اور ’’ لَمَّا جَآءَهُمْ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ان کے پاس حق نہ آتا تو انھیں معذور سمجھا جاتا، حق آنے کے بعد اسے جادو کہنا بہت بڑی جرأت ہے۔ ’’ وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِمْ ‘‘ اور ’’ لَمَّا جَآءَهُمْ ‘‘ سے یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات پر غور و فکر کی زحمت ہی نہیں کرتے، بلکہ سنتے ہی انھیں جھٹلا دیتے ہیں اور جب جھٹلانے کے لیے کوئی معقول وجہ نہیں پاتے تو اس کی شدتِ تاثیر کی وجہ سے اسے جادو کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں، حالانکہ کہاں جادو اور کہاں یہ پاکیزہ اور عظیم الشان کلام، جس کی ایک سورت کی مثال وہ نہ لا سکے نہ لا سکتے ہیں اور کہاں نجس اور پلید جادوگر اور کہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا پاک باز اور صادق و امین انسان، جس کی پاک بازی اور صدق و امانت کا انھیں نبوت سے چالیس برس پہلے کا بھی تجربہ تھا۔