فَلِلَّهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
پس تمام تعریفیں (٢١) اللہ کے لئے ہیں جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے جو سارے جہان کا رب
1۔ فَلِلّٰهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَ رَبِّ الْاَرْضِ ....: یہ ان تمام باتوں کا خلاصہ اور نتیجہ ہے جو اس سے پہلے سورت میں بیان ہوئی ہیں۔ جن میں اس اکیلے کا کائنات کو پیدا کرنا، اسے مسخر کرنا، اسے نہایت اعلیٰ انتظام اور عدل کے ساتھ چلانا، مسلمانوں کو دنیا اور آخرت میں اپنے انعامات سے نوازنا، کفار کے آیاتِ الٰہی سے اعراض کی مذمت، نہایت مضبوط دلائل کے ساتھ ان کے کفر و شرک کی تردید اور آخرت میں انھیں ان کے نہایت برے انجام کی وعید سنانا سب کچھ شامل ہے۔ یہ آیات اور ان میں مذکور حقائق اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام خوبیوں اور صفاتِ کمال کا مالک ہے اور وہ اکیلا تمام نعمتیں عطا فرمانے والا ہے۔ اس بات کو بطور نتیجہ بیان فرمایا۔ ’’ فَلِلّٰهِ الْحَمْدُ‘‘ میں’’ لِلّٰهِ‘‘ کو پہلے لانے سے کلام میں حصر پیدا ہو گیا اور ’’فاء‘‘ کے ساتھ پچھلی ساری سورت کے ساتھ کلام کا تعلق قائم ہو گیا کہ جب وہ سب کچھ ثابت ہوا جو پہلے مذکور ہے تو ثابت ہو گیا کہ تمام حمد صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ اب ’’ فَلِلّٰهِ الْحَمْدُ ‘‘ سے تین معنی مراد ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ اس میں خبر دی جا رہی ہے کہ تمام حمد اللہ ہی کے لیے ہے، دوسرا یہ کہ حکم دیا جا رہا ہے کہ تم اللہ ہی کی حمد کرو اور تیسرا یہ کہ اس میں حمد کی انشاء ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنی حمد فرما رہا ہے جس کا وہ یقیناً حق دار ہے اور اکیلا حق دار ہے۔ پچھلے کلام کا خلاصہ اور نتیجہ ہونے میں اس آیت کی مثال یہ آیت بھی ہے: ﴿ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ [الأنعام:۴۵ ] ’’تو ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی جنھوں نے ظلم کیا تھا اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سب جہانوں کا رب ہے۔‘‘ (ابن عاشور) 2۔ رَبِّ السَّمٰوٰتِ....: يہاں ’’رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ‘‘ بھی کہا جا سکتا تھا، مگر حمد کا مستحق ہونے میں رب ہونے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اسے تین دفعہ دہرایا: ﴿ رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَ رَبِّ الْاَرْضِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت ہماری حمد کا مستحق ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے، کیونکہ ہمارا وجود، ہماری بقا، ہماری زندگی کا ہر لمحہ اور دنیا اور آخرت میں ہمیں ملنے والی ہر نعمت اسی کا نتیجہ ہے، یہ نہ ہو تو ہمارا وجود تک نہ ہو۔ اس لیے قرآن مجید کی سب سے عظمت والی اور پہلی سورت کی ابتدا اسی کے ساتھ فرمائی: ﴿ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ﴾ [ الفاتحۃ : ۱ ] ’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘ سورۂ صافات اور زیر تفسیر سورت کا خاتمہ اس کے ساتھ فرمایا اور جنتیوں کے متعلق بتایا: ﴿ دَعْوٰىهُمْ فِيْهَا سُبْحٰنَكَ اللّٰهُمَّ وَ تَحِيَّتُهُمْ فِيْهَا سَلٰمٌ وَ اٰخِرُ دَعْوٰىهُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ [ یونس:۱۰] ’’ان کی دعا ان میں یہ ہو گی ’’پاک ہے تو اے اللہ!‘‘ اور ان کی آپس کی دعا ان (باغات) میں سلام ہوگی اور ان کی دعا کا خاتمہ یہ ہوگا کہ سب تعریف اللہ کے لیے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘