وَإِذَا قِيلَ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ لَا رَيْبَ فِيهَا قُلْتُم مَّا نَدْرِي مَا السَّاعَةُ إِن نَّظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ
اور جب کہا جاتا تھا کہ بے شک اللہ کا وعدہ برحق (١٩) ہے، اور قیامت کی آمد میں کوئی شبہ نہیں ہے، تو تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے کہ قیامت کیا چیز ہے، ہم اسے ایک ظن محض سمجھتے ہیں، اور ہم اس پر بالکل یقین نہیں کرتے ہیں
1۔ وَ اِذَا قِيْلَ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ السَّاعَةُ ....: اللہ تعالیٰ کفار کے جرائم بیان کرتے ہوئے فرمائیں گے کہ جب تم سے کہا جاتا تھا کہ یقیناً اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں تو تم یہ کہہ کر اس کا مذاق اڑاتے اور انکار کرتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا چیز ہے؟ جیسے فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کا انکار کرتے ہوئے کہا تھا: ﴿ وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ ﴾ [ الشعراء : ۲۳ ] ’’اور رب العالمین کیا چیز ہے؟‘‘ یہ جھٹلانے کا بدترین انداز ہے جس میں انکار کے ساتھ استہزا بھی شامل ہے۔ 2۔ اِنْ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا: یہاں ایک سوال ہے کہ اس جملے کا لفظی معنی ہے ’’ہم نہیں گمان کرتے مگر گمان کرنا ‘‘ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے ’’إِنْ نَأْكُلُ إِلَّا أَكْلًا‘‘ ’’ہم نہیں کھاتے مگر کھانا۔‘‘ ظاہر ہے اس سے کوئی مفید مطلب بات حاصل نہیں ہوتی۔ جواب اس کا یہ ہے کہ ’’ ظَنًّا ‘‘ پر تنوین تقلیل و تحقیر کے لیے ہے، یعنی ہم گمان نہیں کرتے مگر ہلکا اور معمولی سا گمان، یعنی پیغمبروں کے وعظ اور لوگوں کے کہنے کی وجہ سے ہمیں اس کا معمولی سا گمان ہوتا ہے جس کی کچھ حیثیت نہیں۔ واضح رہے کہ قرآن مجید میں بعض مقامات پر ظن یقین کے معنی میں آیا ہے، مگر یہاں شک کے معنی میں ہے، کیونکہ وہ یقین کے مقابلے میں آ رہا ہے۔ 3۔ وَ مَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِيْنَ: ’’باء‘‘ یہاں نفی کی تاکید کے لیے ہے اور ’’ مُسْتَيْقِنِيْنَ ‘‘ میں سین اور تاء مبالغہ کے لیے ہے، یعنی ہم پورا یقین کرنے والے ہر گز نہیں ہیں، کبھی معمولی سا گمان یا دھندلا سا خیال آ جائے تو وہ الگ بات ہے۔ 4۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں، اس کی کتابوں، یومِ آخرت اور تقدیر میں سے کسی چیز میں شک ہو (گو انکار نہ بھی ہو) تو وہ کافر ہے۔ ایمان نام ہی یقین یعنی زوالِ شک کا ہے، کیونکہ انسان کو اللہ کے احکام کا پابند بنانے والی چیز ہے ہی یقین۔ آگے یقین کے درجات مختلف ہو سکتے ہیں اور ایمان میں کمی بیشی ہو سکتی ہے، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کے چار پرندوں والے واقعہ سے ظاہر ہے۔