أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَن يَهْدِيهِ مِن بَعْدِ اللَّهِ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
کیا آپ نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش (١٥) کو اپنا معبود بنا لیا، اور اللہ نے اسے حق بات کا علم ہوجانے کے باوجود گمراہ کردیا، اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی، اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا، ایسے آدمی کو اللہ کے بعد کون راہ دکھا سکتا ہے، کیا تم لوگ نصیحت نہیں حاصل کرتے
1۔ اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ: سلسلۂ کلام سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ آخرت کا انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنے نفس کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کرنا چاہتے ہیں۔ آخرت کا عقیدہ ان کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے، اس لیے وہ آخرت کا انکار کر دیتے ہیں، پھر ان کے دل میں جو آتا ہے کرتے چلے جاتے ہیں۔ جس طرح ایک مومن اپنے رب کو اپنا معبود مانتا ہے، اسی کے حکم پر چلتا ہے، اس کے حلال کردہ کو حلال اور حرام کردہ کو حرام سمجھتا ہے۔ اسی طرح آخرت کے منکروں کا معبود ان کے نفس کی خواہش ہی ہوتا ہے، وہ جو چاہے ان کے لیے حلال اور جو نہ چاہے ان کے ہاں حرام ہوتا ہے۔ پھر جب وہ آخرت کی باز پرس سے بے فکر ہو جاتے ہیں تو ان کی گمراہی بڑھتی ہی جاتی ہے، نہ کوئی چیز انھیں برائی سے روکنے والی ہوتی ہے نہ نیکی پر مائل کرنے والی۔ 2۔ تفسیر قرطبی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں بھی ’’هَوٰي‘‘ (خواہشِ نفس) کا ذکر فرمایا ہے، مذمت ہی کے طور پر فرمایا ہے، مثلاً فرمایا: ﴿ وَ لٰكِنَّهٗ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِ ﴾ [ الأعراف : ۱۷۶ ] ’’مگر وہ زمین کی طرف چمٹ گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا، تو اس کی مثال کتے کی مثال کی طرح ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا﴾ [ الکہف : ۲۸ ] ’’اور اس شخص کا کہنا مت مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام ہمیشہ حد سے بڑھا ہوا ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿بَلِ اتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا اَهْوَآءَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَمَنْ يَّهْدِيْ مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ ﴾ [ الروم : ۲۹ ] ’’بلکہ وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا وہ جانے بغیر اپنی خواہشوں کے پیچھے چل پڑے، پھر اسے کون راہ پر لائے جسے اللہ نے گمراہ کر دیا ہو۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِ ﴾ [ القصص : ۵۰] ’’اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو اللہ کی طرف سے کسی ہدایت کے بغیر اپنی خواہش کی پیروی کرے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَ لَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ﴾ [صٓ : ۲۶ ] ’’اور خواہش کی پیروی نہ کر، ورنہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى (40) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَاْوٰى ﴾ [ النازعات : ۴۰، ۴۱ ] ’’اور رہا وہ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اس نے نفس کو خواہش سے روک لیا۔ تو بے شک جنت ہی (اس کا) ٹھکانا ہے۔‘‘ 3۔ ’’ اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ ‘‘ کی مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورۂ فرقان (۴۳) کی تفسیر۔ 4۔ وَ اَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰى عِلْمٍ: اس کی تفسیر دو طرح سے ہے، ایک یہ کہ ازل سے اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ وہ راہِ راست پر آنے والا نہیں بلکہ اپنی خواہش نفس ہی کو اپنا معبود بنانے والا اور آخرت کے انکار پر اصرار کرنے والا ہے، اس لیے اس نے اپنے علم کی بنا پر اسے گمراہی میں پھینک دیا۔ دوسری یہ کہ وہ یہ جاننے کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ ہی معبود برحق ہے اور قیامت یقیناً قائم ہونے والی ہے فسق و فجور کی آزادی کے لیے قیامت کے انکار پر اڑ گیا۔ (دیکھیے قیامہ : ۱ تا ۶) تو اللہ تعالیٰ نے بھی اسے گمراہی میں پھینک دیا، جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَ مَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ وَ سَآءَتْ مَصِيْرًا ﴾ [ النساء : ۱۱۵ ] ’’اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت خوب واضح ہو چکی اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے، ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے۔‘‘ 5۔ وَ خَتَمَ عَلٰى سَمْعِهٖ وَ قَلْبِهٖ: اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۷) کی تفسیر۔ 6۔ فَمَنْ يَّهْدِيْهِ مِنْۢ بَعْدِ اللّٰهِ:’’ أَيْ مِنْ بَعْدِ مَا أَضَلَّهُ اللّٰهُ ‘‘ یعنی جب اللہ تعالیٰ ہی نے اسے گمراہ کر دیا تو اب کون اسے ہدایت دے گا۔ 7۔ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ: ’’ تَذَكَّرُوْنَ ‘‘ اصل میں ’’تَتَذَكَّرُوْنَ‘‘ ہے، ایک تاء تخفیف کے لیے حذف فرما دی ہے۔