سورة الزخرف - آیت 63

وَلَمَّا جَاءَ عِيسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُم بِالْحِكْمَةِ وَلِأُبَيِّنَ لَكُم بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب عیسیٰ معجزات (٢٨) لے کر (بنی اسرائیل کے پاس آئے)، تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے لئے حکمت و دانائی کی باتیں لے کر آیا ہوں، اور تاکہ میں تمہارے لئے ان بعض باتوں کی وضاحت کر دوں جن میں تم اختلاف کرتے ہو، پس تم اللہ سے ڈرو، اور میری بات مانو

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَمَّا جَآءَ عِيْسٰى بِالْبَيِّنٰتِ: ’’اَلْبَيِّنَاتُ‘‘ ’’بَيِّنَةٌ‘‘ کی جمع ہے، واضح، روشن چیز۔ یہ محذوف موصوف کی صفت ہے جو معجزات بھی ہیں، دلائل بھی اور آیات بھی۔ یعنی جب عیسیٰ علیہ السلام واضح اور روشن معجزات، توحیدِ الٰہی اور اپنی رسالت کے واضح دلائل اور اللہ تعالیٰ کی واضح اور روشن آیات لے کر آئے۔ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ: ’’اَلْحِكْمَةُ‘‘ محکم اور پکی بات، دانائی کی بات جو صحیح عقل کے عین مطابق ہو۔ وَ لِاُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِيْ تَخْتَلِفُوْنَ فِيْهِ....: یعنی جب عیسیٰ علیہ السلام بینات لے کر بنی اسرائیل کے پاس آئے تو انھیں بتایا کہ میں تمھارے پاس اللہ کی شریعت لے کر آیا ہوں، جو نہایت محکم اور مضبوط ہے اور سراسر دانائی پر مشتمل ہے، تاکہ وہ تمھیں سکھاؤں اور تاکہ بعض باتیں جن میں تمھارے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا ہے ان میں محکم اور پختہ بات کے ساتھ حق واضح کر دوں۔ بعض اس لیے فرمایا کہ پیغمبر کا کام دینی احکام کی رہنمائی ہے، دنیوی معاملات مثلاً تجارت، زراعت اور صنعت وغیرہ کو لوگوں کے تجربہ و عقل پر رہنے دیا گیا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ )) [ مسلم، الفضائل، باب وجوب امتثال ما قالہ شرعا....: ۲۳۶۳ ] ’’اپنا دنیاوی معاملہ تم بہتر جانتے ہو۔‘‘ یا بعض اس لیے فرمایا کہ بعض کا فیصلہ آخری پیغمبر کے آنے پر چھوڑ دیا گیا۔ واضح رہے کہ بنی اسرائیل میں توحید، قیامت اور مختلف اشیاء کی حلت و حرمت کے بارے میں کئی طرح کا اختلاف پیدا ہو گیا تھا، مثلاً ان میں سے کچھ حق پر قائم تھے تو بعض عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہنے لگ گئے تھے۔ قیامت کے متعلق انھوں نے ایسے عقائد گھڑ لیے تھے جن سے اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہی کا معاملہ ہی ختم ہو جاتا تھا۔ مثلاً ان کا کہنا: ﴿نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗ ﴾ [ المائدۃ : ۱۸ ] ’’ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔‘‘ یعنی ہم بنی اسرائیل اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں ( جس طرح مسلمانوں میں کئی سید بادشاہ اپنے بارے میں باور کرواتے ہیں) اور یہ کہ جنت ہمارا حق ہے، اگر جہنم میں گئے بھی تو چند روز کے لیے جائیں گے۔ کچھ چیزیں ان کی سرکشی اور نافرمانی کی وجہ سے ان پر حرام کی گئی تھیں، کچھ ان کے احبار و رہبان نے حرام کر دی تھیں۔ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تمھارے ان اختلافات میں حق واضح کرنے کے لیے آیا ہوں، اس لیے تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔