سورة الزخرف - آیت 22

بَلْ قَالُوا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّهْتَدُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقہ (٨) پر چلتے پایا ہے، اور ہم یقیناً انہی کے نقش قدم کی پیروی کرتے رہیں گے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

بَلْ قَالُوْا اِنَّا وَجَدْنَا اٰبَآءَنَا عَلٰى اُمَّةٍ....: یعنی ایسا نہیں کہ ان کے پاس اپنی گمراہی کے لیے اللہ تعالیٰ کی کسی کتاب کی کوئی دلیل یا سند موجود ہے، بلکہ ان کی دلیل اور سند یہی ہے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی راہ پر پایا ہے اور ہم انھی کے قدموں کے نشانوں پر راہ پانے والے ہیں۔ اس کی ہم معنی آیت کے لیے دیکھیے سورۂ ذاریات (۵۲، ۵۳)۔ باطل اور ناحق باتوں (شرک و بدعت اور رسوم) میں بڑوں اور بزرگوں کی پیروی کو دلیل بنانا وہ گمراہی ہے جو قدیم زمانے سے چلی آئی ہے اور کفار کا شیوہ رہا ہے کہ وہ انبیاء کے مقابلے میں اس کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں، قرآن نے متعدد آیات میں ان کی مذمت فرمائی ہے۔ معلوم ہوا کہ جس بات میں اللہ اور رسول کی کوئی سند نہ ہو اس میں باپ دادا یا کسی امام، مرشد یا بزرگ کی تقلید کرنا اور یہ کہنا کہ ہمارے بزرگ چونکہ ایسے ہی کرتے چلے آئے ہیں، لہٰذا ہم بھی اسی راہ پر چلیں گے، سراسر باطل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقلدین کی یہ تقلید صرف دین کے معاملے میں ہوتی ہے، اگر انھیں اپنے باپ دادا کے کسی دنیوی کاروبار میں روپے پیسے کا نقصان نظر آئے تو کبھی ان کی پیروی نہیں کریں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک دین اور آخرت کا خسارہ کچھ خسارہ ہی نہیں، ورنہ وہ کبھی ایسا نہ کریں۔