وَلَقَدْ كُنتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِن قَبْلِ أَن تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ
تم لوگ موت کو سامنے دیکھنے سے پہلے اس کی تمنا کرتے تھے، پس تم لوگوں نے اب اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا
وَ لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ : یہاں موت کا معنی جنگ یا شہادت ہے۔ ( بغوی) جن لوگوں کو جنگ بدر میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا وہ تمنا کیا کرتے تھے کہ دشمن سے مقابلے کا موقع ملے تو ہم بھی شہدائے بدر کا درجہ حاصل کر لیں، مگر جب جنگ احد میں موقع ملا تو دشمن کے اچانک حملے کی وجہ سے ثابت قدم نہ رہ سکے اور بعض بھاگ نکلے۔ اس آیت میں صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تمہاری تمنا کے مطابق اب یہ موقع آیا تو تمھیں چاہیے تھا کہ پوری جواں مردی سے دشمن کا مقابلہ کرتے اور پامردی کا ثبوت دیتے۔ عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کیا کرو، بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے رہا کرو، ہاں، اگر دشمن سے مقابلہ ہو جائے تو پھر صبر کرو اور خوب جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔‘‘ [بخاری، الجہاد والسیر، باب لا تمنوا لقاء العدو : ۳۰۲۵ ]