أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ
کیا تم نے یہ سمجھ (97) لیا ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ اب تک اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جانا ہی نہیں جنہوں نے جہاد کیا، اور جنہوں نے صبر سے کام لیا
وَ لَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا:بعض سلف نے اس کا معنی کیا ہے ’’ابھی تک اللہ نے ظاہر نہیں کیا‘‘ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تو ماضی، حال اور مستقبل ہر بات کا علم ہے، اس لیے یہ ترجمہ کہ ’’ ابھی تک اللہ نے نہیں جانا‘‘ درست نہیں، مگر ’’عَلِمَ يَعْلَمُ ‘‘ کا معنی تو جاننا ہی ہوتا ہے، ظاہر کرنے کے لیے تو ”لَمَّا يُظْهِرِ اللّٰهُ“ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ ہونے چاہییں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی نوع ازلی ہے مگر ان کے افراد حادث ہوتے رہتے ہیں، مثلاً پیدا کرنا، سننا اور جاننا وغیرہ، جیسا کہ فرمایا :﴿كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ﴾ [ الرحمٰن : ۲۹ ] ’’ہر دن وہ ایک نئی شان میں ہے۔‘‘ خالق تو وہ ازل سے ہے، مگر جب وہ کوئی چیز پیدا کرے گا تو اس چیز کی خلق اس وقت وجود میں آئے گی۔ اسی طرح آیت : ﴿قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا ﴾ [ المجادلۃ : ۱ ] ’’یقینا اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو تجھ سے اپنے خاوند کے بارے میں جھگڑ رہی تھی‘‘ اس عورت کے جھگڑے کے بعد ہی واقعاتی سماع وجود میں آیا، اسی طرح جہاد کرنے کا واقعاتی علم تو جہاد کے واقع ہونے کے بعد ہی ہو گا۔ مقصد یہ کہ ابھی تک اللہ تعالیٰ نے اس چیز کا وقوع میں آنا نہیں جانا کہ تم میں سے کس نے جہاد کیا ہے۔ ”وَ يَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ“ میں میم ’’ لامِ كَيْ‘‘ کی وجہ سے منصوب ہے، جو یہاں محذوف ہے اس لیے ترجمہ کیا ہے ’’اور تاکہ وہ صبر کرنے والوں کو جان لے۔‘‘ خلاصہ یہ ہے کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ ایسی آزمائش کے بغیر ہی تم کو جنت میں اعلیٰ مراتب مل جائیں گے؟ مطلب یہ کہ جب تک اس قسم کی آزمائشوں میں پورے نہیں اترو گے جنت میں اعلیٰ مراتب حاصل نہیں ہو سکتے۔