فَلِذَٰلِكَ فَادْعُ ۖ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ۖ وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتَابٍ ۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ ۖ اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۖ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ۖ اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ
پس اے میرے نبی ! آپ لوگوں کو اسی (دین توحید) کی طرف بلاتے (١١) رہئے، اور خود بھی اسی پر قائم رہئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے، اور ان (کافروں) کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے، اور آپ کہہ دیجیے کہ میں تو ان تمام کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں جو اللہ نے نازل کی ہیں، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کے مطابق فیصلہ کروں، اللہ ہی ہمارا رب ہے اور تمہارا رب ہے، ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں، اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے (اس لئے کہ حق واضح ہوچکا ہے) اللہ (قیامت کے دن) ہم سب کو جمع کرے گا، اور سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے
1۔ فَلِذٰلِكَ فَادْعُ: مفسر ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’یہ آیت کریمہ دس جملوں پر مشتمل ہے، جن میں سے ہر جملہ اپنی جگہ مستقل مضمون ہے۔ آیت الکرسی کے سوا کوئی اور آیت ایسی نہیں۔‘‘ (ابن کثیر) ’’ فَلِذٰلِكَ ‘‘ جار مجرور ’’ فَلِذٰلِكَ فَادْعُ ‘‘ کے متعلق ہے، پہلے لانے سے اس میں اختصاص پیدا ہو گیا، یعنی لوگوں کو کسی اور نہیں بلکہ دین کے اسی طریقے کی دعوت دیں جو اس نے وحی کے ذریعے سے تمام انبیاء کے لیے مقرر فرمایا ہے اور وہ ہے ایک اللہ کی عبادت۔ اس کے دین کو قائم کرنا اور اس میں جدا جدا نہ ہو جانا، بلکہ اکٹھے ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینا۔ 2۔ وَ اسْتَقِمْ كَمَا اُمِرْتَ: دوسروں کو دعوت کے لیے خود اس پر عمل اور استقامت ضروری ہے، اس لیے اس پر مضبوطی سے قائم رہنے کا حکم دیا۔ ’’ وَ اسْتَقِمْ ‘‘ اور ’’ كَمَا اُمِرْتَ ‘‘ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ ہود (۱۱۲)۔ 3۔ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ: یعنی آپ اس کی پیروی کریں جس کا اللہ کی طرف سے آپ کو حکم دیا گیا ہے، اس کے سوا جو کچھ ہے محض خواہشات ہیں۔ اس لیے ان لوگوں کو خوش کرنے کے لیے یا ان سے صلح کی خاطر ان کی خواہشات کی پیروی مت کریں اور نہ دین میں کسی قسم کی مداہنت سے کام لیں۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۴۵) اور سورۂ مائدہ (۴۹)۔ 4۔ وَ قُلْ اٰمَنْتُ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنْ كِتٰبٍ: اہلِ کتاب چونکہ کسی آسمانی کتاب کو مانتے اور کسی کو نہیں مانتے تھے، اسی طرح اپنی کتاب کے بھی بعض حصوں کو مانتے تھے اور بعض کو نہیں مانتے تھے۔ (دیکھیے بقرہ : ۸۵) حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہر کتاب اور اس کی ہر بات پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس لیے فرمایا، ان سے کہہ دیں کہ میں فرقہ پرستوں کی طرح نہیں جو مرضی کی بات مانتے ہیں دوسری نہیں، بلکہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہر کتاب پر ایمان رکھتا ہوں، وہ خواہ کوئی ہو۔ میں پہلے انبیاء کی تکذیب کے لیے نہیں بلکہ ان کی تصدیق کے لیے آیا ہوں۔ تم پر بھی لازم ہے کہ تمھاری کتابوں میں میری اور قرآن کی جو تصدیق موجود ہے اس پر بھی ایمان لاؤ، تاکہ تمھارا ایمان بھی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہر کتاب پر ہو۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۱۳۶) : ﴿لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ ﴾ کی تفسیر۔ 5۔ وَ اُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَيْنَكُمْ: عدل کا معنی انصاف اور برابری ہے، اس کے مقابلے میں ظلم ہے۔ یعنی مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمھارے درمیان عدل کروں، تمام لوگوں کو انصاف مہیا کروں، دنیا میں جو ظلم و زیادتی ہو رہی ہے اس کا خاتمہ کروں اور فیصلہ کرتے ہوئے اپنے پرائے میں فرق نہ کروں، بلکہ سب کو برابر رکھوں۔ اسی طرح چھوٹے و بڑے، کمزور و طاقتور اور امیر و غریب کے درمیان فرق نہ کروں۔ اس جملے میں اس غلبہ و اقتدار کی طرف بھی اشارہ ہے جو مدینہ جا کر حاصل ہونے والا تھا، کیونکہ بے اختیار شخص کیا عدل کرے گا اور اس کے پاس عدل طلب کرنے کے لیے کون جائے گا۔ 6۔ اَللّٰهُ رَبُّنَا وَ رَبُّكُمْ: تمام بندوں میں عدل کا حکم اس لیے ہے کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے اور وہی تمھارا رب ہے، ہم تم سب اس کے بندے ہیں۔ سو عدل کا حکم بھی سب کے لیے ہے، خواہ اپنا ہو یا پرایا، ضعیف ہو یا شریف، حکمران ہو یا رعایا۔ 7۔ لَنَا اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ: اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک اظہارِ براء ت، جیسے فرمایا : ﴿ لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَ لِيَ دِيْنِ ﴾ [الکافرون : ۶ ] ’’تمھارے لیے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین ہے۔‘‘ اور جیسا کہ سورۂ انعام (۱۳۵)، ہود (۹۳، ۱۲۱) اور سورۂ زمر (۳۹)میں اظہارِ براء ت فرمایا ہے۔ دوسرا مطلب یہ کہ ہمارے اچھے یا برے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے ہیں، نہ ہمارے اچھے اعمال تمھیں دیے جائیں گے اور نہ تمھارے اچھے اعمال ہمیں دیے جائیں گے۔ اسی طرح نہ تم ہمارے بد اعمال میں پکڑے جاؤ گے اور نہ ہم تمھارے بد اعمال میں پکڑے جائیں گے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ فَاِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَيْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ ﴾ [ النور : ۵۴ ] ’’ تو اس کے ذمے صرف وہ ہے جو اس پر بوجھ ڈالا گیا ہے اور تمھارے ذمے وہ جو تم پر بوجھ ڈالا گیا۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۳۹)، یونس (۴۱)، ہود (۳۵) اور قصص (۵۵)۔ 8۔ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ: یعنی جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں، جو بات حق تھی وہ ہم نے دلائل کے ساتھ واضح کر دی، ہمیں تمھارے باطل پر اور اپنے حق پر ہونے کا پورا یقین ہے۔ تم اپنی بات پر اڑے ہوئے ہو، اس لیے جھگڑے کا کوئی فائدہ نہیں، تم جھگڑو بھی تو ہم جھگڑنے کے لیے تیار نہیں، اب تلوار کے ساتھ فیصلہ باقی رہ جاتاہے، وہ اپنے وقت پر ہو جائے گا۔ 9۔ اَللّٰهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا: باطل پر جمے رہنے اور اس پر ناحق جھگڑا کرنے سے ڈراتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمھیں جمع کرے گا، کیا تمھیں اس بات سے خوف نہیں آتا کہ ناحق جھگڑے کا وہاں کیا جواب دو گے؟ 10۔ وَ اِلَيْهِ الْمَصِيْرُ: اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے، وہاں پورا انصاف ہو جائے گا۔