قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّهِ ثُمَّ كَفَرْتُم بِهِ مَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ هُوَ فِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ
اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے، کیا تم نے سوچا (٣٥) ہے کہ اگر قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہوا، پھر تم نے اس کا انکار کردیا ہے، تو اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جو اس کی مخالفت میں دور نکل گیا ہو
قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ثُمَّ كَفَرْتُمْ بِهٖ....: یہ پوری سورت قرآن کریم، توحید و رسالت اور قیامت کے حق ہونے کے دلائل سے بھری ہوئی ہے، جنھیں کفار نہ صرف یہ کہ مانتے نہیں تھے بلکہ سننے پر بھی تیار نہیں تھے، جیسا کہ آیت (۵) میں گزرا : ﴿ وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْ اَكِنَّةٍ ﴾ ’’اور انھوں نے کہا ہمارے دل اس بات سے پردوں میں ہیں۔‘‘ اور آیت (۲۶) میں ہے : ﴿ وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِهٰذَا الْقُرْاٰنِ﴾ ’’ اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، اس قرآن کو مت سنو۔‘‘ تو سورت کے آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ ان سے کہیں کہ تم جو قرآن کو سننے تک کے لیے تیار نہیں اسے باطل یا جھوٹ کیسے کہہ سکتے ہو؟ کیونکہ اسے غلط تو تب کہہ سکتے ہو کہ اسے سنو، پھر حق ہو تو قبول کرو، ورنہ دلیل سے اسے باطل قرار دو، اتنا تم میں حوصلہ نہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ تمھیں اس کے باطل ہونے کا یقین نہیں، ورنہ ایسی چیز جس کا غلط ہونا بالکل واضح ہو، اس کے سننے پر اتنی شدید پابندی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس سے ظاہر ہے کہ تمھارے ذہن میں بھی اس کے حق ہونے کا امکان موجود ہے۔ اس لیے یہ بتاؤ کہ یہ قرآن جسے تم سننے ہی کے روادار نہیں، اگر واقعی اللہ کی طرف سے حق ہوا، پھر سنے سمجھے بغیر تم نے اسے جھٹلا دیا اور اسی حالت میں تمھاری موت آ گئی، پھر حشر برپا ہوا تو اس وقت تو تم اتنی دور کی مخالفت میں پڑ چکے ہو گے جو بہت دور کی مخالفت ہے، جس سے واپسی تم چاہو گے بھی تو ممکن نہیں۔ پھر جو خواہ مخواہ کی ایسی غلط مخالفت پر ڈٹ جائے، جس سے واپسی ممکن نہ ہو، اس سے زیادہ گمراہ کون ہو سکتا ہے؟ آیت کا مقصد کفار کو سننے اور سوچنے پر آمادگی کی ترغیب اور اس وقت سے ڈرانا ہے جب ان کی مخالفت کے نقصان کا مداوا نہیں ہو سکے گا۔