وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ رَحْمَةً مِّنَّا مِن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ هَٰذَا لِي وَمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً وَلَئِن رُّجِعْتُ إِلَىٰ رَبِّي إِنَّ لِي عِندَهُ لَلْحُسْنَىٰ ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِمَا عَمِلُوا وَلَنُذِيقَنَّهُم مِّنْ عَذَابٍ غَلِيظٍ
اور اگر کسی تکلیف کے بعد جو اسے پہنچتی ہے، ہم اپنی طرف سے اسے کسی نعمت (٣٣) سے نوازتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ میں تو اس کا مستحق تھا ہی، اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت آئے گی، اور اگر میں اپنے رب کے پاس لوٹ کر گیا تو یقیناً مجھے اس کے پاس سب سے اچھا مقام ملے گا، پس اس وقت ہم کفر کرنے والوں کو یقیناً ان کے برے اعمال کی خبر دیں گے، اور ہم یقیناً انہیں نہایت سخت عذاب کا مزا چکھائیں گے
1۔ وَ لَىِٕنْ اَذَقْنٰهُ رَحْمَةً مِّنَّا....: یعنی ایک طرف وہ ناامیدی کہ شر کے چھو جانے ہی سے آخری حد تک ناامید ہوتا ہے، دوسری طرف یہ احسان فراموشی کہ مصیبت کے بعد کسی رحمت کا ذائقہ چکھتے ہی پھول جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے لاتعلق ہو جاتا ہے، حالانکہ نہ وہ شر اور مصیبت دائمی تھی نہ اس دنیوی نعمت کو دوام ہے۔ پھر یہ نعمت اس کی محنت کا نتیجہ نہیں کہ اس پر پھول جائے، بلکہ یہ محض ہماری عطا ہے۔ ’’ رَحْمَةً مِّنَّا ‘‘ کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ ہود (۹، ۱۰) کی تفسیر۔ 2۔ لَيَقُوْلَنَّ هٰذَا لِيْ: یعنی کافر آدمی دنیوی نعمت کا ذائقہ چکھتے ہی تین کفریہ باتیں کہے گا، اس کے دل میں یہی باتیں ہوں گی اور زبان سے بھی یہی کہے گا۔ پہلی بات یہ کہ یہ نعمت میری جدوجہد کا نتیجہ اور میرا حق ہے، جیسا کہ فرعون کے لوگ کہتے تھے (دیکھیے اعراف : ۱۳۰، ۱۳۱) اور جیسا کہ قارون نے کہا تھا (دیکھیے قصص : ۷۸) حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی صریح ناشکری اور احسان فراموشی ہے۔ 3۔ وَ مَا اَظُنُّ السَّاعَةَ قَآىِٕمَةً وَّ لَىِٕنْ رُّجِعْتُ اِلٰى رَبِّيْ اِنَّ لِيْ عِنْدَهٗ لَلْحُسْنٰى: ان دونوں باتوں کی تفصیل سورۂ کہف کی آیت (۳۶) کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔