وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۗ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب (٣٠) (یعنی تورات) دی تھی، تو اس میں اختلاف پیدا کیا گیا، اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات طے نہ ہوچکی ہوتی ( کہ ان کا حساب قیامت کے دن ہوگا) تو ان کا اسی دنیا میں ہی فیصلہ کردیا جاتا، اور بے شک وہ لوگ قرآن کی صدقت کے بارے میں بڑے گہرے شک میں مبتلا ہیں
1۔ وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِيْهِ: اس سے بھی مقصود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا ہے، یعنی اس سے پہلے موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی گئی، مگر لوگوں نے اس کے ماننے اور نہ ماننے میں اختلاف کیا، اسی طرح اگر یہ کفارِ مکہ قرآن کی مخالفت کر رہے ہیں تو آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں؟ (قرطبی) 2۔ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ: یعنی اگر پہلے یہ طے نہ ہو چکا ہوتا کہ کفار کے اعمالِ بد پر فوری گرفت کے بجائے دنیا میں ایک وقت تک انھیں مہلت دی جائے گی اور اصل فیصلہ آخرت میں ہو گا، تو ان کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ دیکھیے سورۂ ابراہیم (۴۲)، نحل (۶۱) اور فاطر (۴۵)۔ ’’ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ ‘‘ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے یہ طے نہ کر دیا ہوتا کہ ان کفار سے پیدا ہونے والی نسلیں مسلمان ہوں گی، جو اسلام کا علم بلند کریں گی تو ان کا قصہ تمام کر دیا گیا ہوتا، جیساکہ طائف میں ہونے والی بدسلوکی پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دل جوئی کے لیے ملک الجبال (پہاڑوں کے فرشتے) کو بھیجا اور اس نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کش کی کہ اگر آپ کہیں تو میں ان کفار پر اخشبین (دو پہاڑوں) کو ملا دوں۔ (یہ مکہ کے دو پہاڑ ہیں، ایک ابوقبیس ہے اور دوسرا اس کے بالمقابل قُعیقعان ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( بَلْ أَرْجُوْ أَنْ يُّخْرِجَ اللّٰهُ مِنْ أَصْلاَبِهِمْ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ وَحْدَهُ لاَ يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا)) [ بخاري، بدء الخلق، باب إذا قال أحدکم آمین....: ۳۲۳۱، عن عائشۃ رضی اللہ عنھا ] ’’بلکہ میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے ان لوگوں کو نکالے گا جو اکیلے اللہ عزو جل کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بنائیں گے۔‘‘ ’’ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ ‘‘ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ فرعون کے غرق ہونے کے بعد طے کر دیا گیا کہ اب پہلی اقوام پر آنے والے عذابوں کے بجائے دنیا میں کفار کو جہاد کے ذریعے سے مسلمانوں کے ہاتھوں سزا دی جائے گی اور آخری فیصلہ قیامت کے دن ہو گا۔یہ پوری آیت اور اس کی تفسیر سورۂ ہود کی آیت (۱۱۰) میں گزر چکی ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں۔ 3۔ وَ اِنَّهُمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيْبٍ: ’’ شَكٍّ ‘‘ اور ’’ مُرِيْبٍ ‘‘ کی لغوی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ ہود (۶۲)۔