سورة فصلت - آیت 33

وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اس آدمی سے زیادہ اچھی بات (٢٢) والا کون ہوسکتا ہے جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا، اور عمل صالح کیا، اور کہا کہ میں بے شک مسلمانوں میں سے ہوں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا اِلَى اللّٰهِ....: پچھلی آیات میں ایمان لا کر اس پر استقامت اختیار کرنے والوں کو فرشتوں کے نزول، دنیا و آخرت میں ان کی دوستی، جنت میں داخلے اور غفور و رحیم کی مہمانی کی بشارت دے کر ان کے قلبی سکون و اطمینان اور دلی راحت کا سامان فرمایا، اب ایک ایسے کام کا ذکر فرمایا جو ’’ رَبُّنَا اللّٰهُ ‘‘ کہنے کا فطری تقاضا ہے کہ وہ اس نعمت کو اپنے تک محدود نہیں رکھتے، بلکہ ان کی کوشش اسے دنیا کے تمام لوگوں تک پہنچانے کی ہوتی ہے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ جو نعمت انھیں عطا ہوئی ہے وہ ہر شخص کو عطا ہو جائے۔ یہ کام سرانجام دیتے ہوئے جب وہ تین باتوں کا اہتمام کریں تو بات میں ان سے بہتر اور درجے میں ان سے بلند کوئی نہیں ہو سکتا۔ پہلی بات ’’ دَعَا اِلَى اللّٰهِ ‘‘ یعنی وہ صرف اللہ کی طرف بلائیں۔ نہ اپنی ذات کی طرف، نہ کسی شخصیت کی طرف اور نہ کسی قبیلے، جماعت، نسل یا وطن کی طرف، بلکہ ان کی دعوت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف ہو کہ سب اسی کے بندے اور فرماں بردار بن جاؤ، جیسا کہ فرمایا : ﴿ قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْ اَدْعُوْا اِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِيْ وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ مَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ﴾ [ یوسف : ۱۰۸] ’’کہہ دے یہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر، میں اور وہ بھی جنھوں نے میری پیروی کی ہے اور اللہ پاک ہے اور میں شریک بنانے والوں سے نہیں ہوں۔‘‘ یہ پیغمبروں کا اور ان کے جانشینوں کا کام ہے اور اتنا عظیم کام ہے کہ ان کی دعوت سے جو لوگ راہ ہدایت اختیار کریں گے ان کا اجر ان کے علاوہ انھیں بھی ملے گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ دَعَا إِلٰی هُدًی كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُوْرِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذٰلِكَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلٰی ضَلَالَةٍ، كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا يَنْقُصُ ذٰلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا )) [ مسلم، العلم، باب من سن سنۃ حسنۃ أو سیئۃ....: ۲۶۷۴ ] ’’جو شخص ہدایت کی کسی بات کی طرف دعوت دے اس کے لیے ان لوگوں کے اجروں جیسا اجر ہو گا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے اجروں میں کوئی کمی نہیں کرے گا اور جو شخص گمراہی کی کسی بات کی طرف دعوت دے اس پر ان لوگوں کے گناہوں جیسا گناہ ہو گا جو اس کی پیروی کریں گے، یہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ پوری امت مل کر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجے کو نہیں پا سکتی، نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بعد آنے والے ان کے درجے تک پہنچ سکتے ہیں، یہی حال بعد میں دعوت الی اللہ دینے والوں کا ہے۔ پھر بات میں ان سے بہتر کون ہو سکتا ہے جسے ان اعمال کا اجر بھی مل رہا ہو جو اس نے نہیں کیے۔ کوئی شخص خود کتنا بھی عمل کر لے یہ مقام کیسے حاصل کر سکتا ہے؟ 2۔ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت زبان کے ساتھ بھی ہے اور ہاتھ کے ساتھ بھی۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے ساتھ تلوار دے کر بھیجا گیا، آپ کے اصحاب نے آپ کا ساتھ دیا، پھر زبانی دعوت اور جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ اسلام مشرق سے مغرب تک پھیل گیا۔ یہی مناسبت ہے : ﴿ هُوَ الَّذِيْ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًا ﴾ [ الفتح : ۲۸ ] کے بعد : ﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ ....﴾ [الفتح : ۲۹ ] میں۔ مزید دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۰۴، ۱۱۰)۔ 3۔ قول میں سب سے بہتر ہونے کے لیے دوسری ضروری بات ’’ وَ عَمِلَ صَالِحًا ‘‘ ہے، یعنی اللہ کی طرف دعوت دینے کے ساتھ وہ خود بھی عمل صالح کریں۔ صالح عمل کا مطلب یہ ہے کہ وہ خالص اللہ کے لیے ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو۔ (دیکھیے سورۂ کہف کی آخری آیت) جو شخص دوسروں کو دعوت دے مگر خود اس کے خلاف عمل کرے اس کے لیے شدید وعید آئی ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۴۴)۔ 4۔ تیسری بات ’’ وَ قَالَ اِنَّنِيْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ ‘‘ یعنی وہ ڈنکے کی چوٹ یہودی، نصرانی، ہندو، سکھ، کمیونسٹ، ڈیموکریٹ اور لبرل وغیرہ ہونے کے بجائے اپنے مسلم ہونے کا اعلان کرے، اس پر فخر کرے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرے۔ ’’مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ ‘‘ یعنی مسلمانوں کی جماعت کا فرد ہونے پر اسے خوشی ہو اور کسی دین، مذہب، ملت یا معاشرے کو اسلام اور مسلمانوں سے بہتر نہ سمجھے۔ آج کل کے بعض ملحدوں کی طرح نہیں جو مسلمانوں میں پیدا ہو گئے، مگر وہ کفار سے اس قدر مرعوب ہیں کہ بعض اوقات یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ہم بدقسمتی سے مسلمانوں میں پیدا ہو گئے۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے : نہ بہ نظم شاعرِ خوش غزل، نہ بہ نثرِ ناثرِ بے بدل بہ غلامیٔ شہِ عزوجل و بعاشقیٔ نبی خوشم ’’نہ کسی خوب صورت غزل والے شاعر کی نظم پر اور نہ کسی بے مثال نثر لکھنے والے کی نثر پر، بلکہ میں کائنات کے بادشاہ عز و جل کی غلامی پر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر خوش ہوں۔‘‘ عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : (( ذَاقَ طَعْمَ الْإِيْمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللّٰهِ رَبًّا وَ بِالإِْسْلاَمِ دِيْنًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلًا )) [ مسلم، الإیمان، باب الدلیل علٰی أن من رضي باللّٰہ ربا....: ۳۴۔ ترمذي : ۲۶۲۳ ] ’’اس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہو گیا۔‘‘