نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ
ہم دنیا کی زندگی میں تمہارے دوست اور مددگار (٢١) رہے، اور آخرت میں بھی رہیں گے، اور وہاں تمہیں ہر وہ چیز ملے گی جس کا تمہارا نفس خواہش کرے گا اور ہر وہ چیز جس کی تم تمنا کرو گے
1۔ نَحْنُ اَوْلِيٰٓؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ: دنیا میں دوستی یہ کہ ہم تمھارے لیے دعائیں کرتے ہیں (دیکھیے مومن : ۷)، تمھیں نیکی کا الہام کرتے ہیں اور دشمنوں کے مقابلے میں تمھاری مدد کرتے ہیں اور آخرت میں یہ کہ جب متقی لوگوں کے سوا سب ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے، تو ہماری دوستی تمھارے ساتھ قائم رہے گی، ہم آنے والے ہر مرحلے میں تمھارے ساتھی اور مددگار رہیں گے اور تمھیں حفاظت سے جنت میں پہنچائیں گے۔ فرشتے ہر مومن کو اس کی موت کے وقت یہ بشارت دیتے ہیں۔ 2۔ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ: ’’ مَا تَدَّعُوْنَ ‘‘ ’’دَعَا يَدْعُوْ‘‘ سے باب افتعال ہے، جو تم طلب کرو گے، مانگو گے۔ جنت کی نعمتوں کے لیے دیکھیے سورۂ سجدہ کی آیت (۱۷) کی تفسیر۔ ﴿ مَا تَشْتَهِيْ اَنْفُسُكُمْ ﴾ (جو تمھارے دل چاہیں گے) سے مراد وہ چیزیں ہیں جو ان کی ذاتی خواہش ہوں گی اور ’’ مَا تَدَّعُوْنَ ‘‘ (جو تم مانگو گے) کا لفظ عام ہے، اس میں ذاتی خواہش کی اشیا بھی شامل ہیں اور وہ بھی جو ان کی ذاتی خواہش نہیں بلکہ مثال کے طور پر کسی اور کی خاطر طلب کریں گے۔ (ابو السعود)