وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا رَبَّنَا أَرِنَا اللَّذَيْنِ أَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ أَقْدَامِنَا لِيَكُونَا مِنَ الْأَسْفَلِينَ
اور اہل کفر کہیں گے (١٩) اے ہمارے رب ! ذرا ہمیں ان جنوں اور انسانوں کو دکھلا دے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا، تاکہ ہم انہیں اپنے قدموں تلے روند ڈالیں تاکہ وہ خوب ذلیل و رسوا ہوں
1۔ وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا رَبَّنَا اَرِنَا ....: اس سے پہلے آیت (۲۵) : ﴿ وَ قَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَآءَ ....﴾ میں کفار کے اعمالِ بد کی وجہ سے ان پر جن و انس کے وہ قرین مسلط کرنے کا ذکر ہے جو ان کے لیے ان کے برے اعمال خوش نما بنا کر پیش کرتے رہے، حتیٰ کہ ان پر جہنمی ہونے کا ٹھپا پکا ہو گیا۔ اب جہنم میں کفار کی اپنے ان دوستوں کے متعلق خواہش اور اللہ تعالیٰ سے درخواست کا ذکر ہے۔ 2۔ کفار یہ بات جہنم میں جانے کے بعد کہیں گے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ماضی کا صیغہ ’’ قَالَ ‘‘ استعمال فرمایا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بات اتنی یقینی ہے کہ سمجھو یہ کام ہو چکا۔ 3۔ قیامت کے دن جہنمی اپنے گمراہ کرنے والے جن و انس میں سے شیاطین دوستوں پر سخت ناراض ہوں گے اور ان کی خواہش ہو گی کہ انھیں زیادہ سے زیادہ عذاب ہو۔ ’’ اَرِنَا ‘‘ کا لفظی معنی اگرچہ ’’ہمیں دکھا‘‘ ہے، مگر مراد یہ ہے کہ پروردگارا! تو انھیں ہمارے حوالے کر، تاکہ ہم انھیں اپنے قدموں کے نیچے روندیں، تاکہ وہ سب سے نیچے لوگوں میں شامل ہوں۔ ہر کافر خود گمراہ ہونے کے ساتھ دوسروں کو گمراہ کرنے کا مجرم بھی ہے۔ کفار کی یہ خواہش پوری ہو گی یا نہیں، اس کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۳۸، ۳۹) اور سورۂ ص (۵۵ تا ۶۱)۔ 4۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن صرف ایمان والوں کی دوستی باقی رہے گی، دوسرے سب ایک دوسرے میں سے دشمن ہو جائیں گے۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۶۶، ۱۶۷) اور سورۂ زخرف (۶۸)۔