وَذَٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنتُم بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ
یہی وہ تمہاری بد گمانی ہے جو تم نے اپنے رب سے کر رکھی تھی، تمہاری ہلاکت کا سبب بن گئی، پس تم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے بن گئے
وَ ذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِيْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ ....:’’ ذٰلِكُمْ ‘‘ کی خبر’’ ظَنُّكُمْ ‘‘ معرفہ ہونے کی وجہ سے ترجمہ ’’یہی تمھارا گمان تھا‘‘ کیا گیا ہے۔ ’’أَرْدٰي يُرْدِيْ‘‘ (افعال) ہلاک کرنا۔ یعنی تمھارے اسی باطل گمان اور غلط عقیدے نے کہ اللہ تعالیٰ کو تمھارے بہت سے اعمال کا علم نہیں ہوتا، تمھیں ہلاک کر دیا، کیونکہ اس سے تم اس کی نافرمانی پر دلیر ہو گئے اور خسارا پانے والوں میں سے ہو گئے۔ یاد رہے کہ گمراہی کے اسباب میں سے بہت بڑا سبب صحیح غور و فکر نہ کرنا اور محض گمان کے پیچھے چلتے رہنا ہے۔ مشرکین کی اصل گمراہی بھی یہی تھی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ﴾ [ الأنعام : ۱۱۶ ] ’’وہ تو گمان کے سوا کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ يَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ﴾ [ آل عمران : ۱۵۴ ] ’’وہ اللہ کے بارے میں ناحق جاہلیت کا گمان کر رہے تھے۔‘‘