وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدتُّمْ عَلَيْنَا ۖ قَالُوا أَنطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
اور وہ اپنے چمڑوں سے کہیں گے (١٥) تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی ہے، وہ کہیں گے، ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی دے دی ہے، جس نے ہر چیز کو قوت گویائی دی ہے، اور اسی نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے، اور اسی کے پاس تمہیں لوٹ کر جانا ہے
1۔ وَ قَالُوْا لِجُلُوْدِهِمْ لِمَ شَهِدْتُّمْ عَلَيْنَا: اپنے چمڑوں سے یہ بات وہ پوچھنے کے لیے نہیں بلکہ تعجب کے اظہار اور ملامت کے لیے کہیں گے کہ تمھی کو بچانے کے لیے تو ہم اللہ تعالیٰ سے جھوٹ بول رہے تھے اور تمھی ہمارے خلاف شہادت دے رہے ہو۔ 2۔ قَالُوْا اَنْطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِيْ اَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ: اعضا ان کے تعجب اور ملامت دونوں کا جواب دیں گے۔ تعجب کا جواب تو یہ دیں گے کہ ہمارا بولنا کوئی تعجب کی بات نہیں، زبان بولتی تھی تو اللہ کے حکم سے اور اس کے گویائی عطا کرنے سے بولتی تھی، اسی طرح ہر بولنے والی چیز اسی کے حکم سے بولتی ہے، تو اب اس نے ہمیں بلوا دیا تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے؟ 3۔ وَ هُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ: یہ چمڑوں کا کلام بھی ہو سکتا ہے اور آخرت کے منکروں سے اللہ تعالیٰ کا خطاب بھی ہو سکتا ہے۔