وَأَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَاهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَىٰ عَلَى الْهُدَىٰ فَأَخَذَتْهُمْ صَاعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
اسی طرح قوم ثمود کو ہم نے راہ دکھائی (١٣) تو انہوں نے ہدایت کے بجائے گمراہی کو پسند کرلیا، تو ان کے کرتوتوں کے بدلے انہیں رسوا کن عذاب کی کڑک نے پکڑ لیا
1۔ وَ اَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ ....: قوم ثمود کے تعارف کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۷۳ تا ۷۹)۔ ہدایت کی تفسیر کے لیے سورۂ فاتحہ کی آیت : اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ یعنی ہم نے انھیں راہِ حق دکھا دیا، مگر انھوں نے ہدایت قبول کرنے کے بجائے اندھا اور گمراہ رہنے کو ترجیح دی۔ 2۔ فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ ....:’’ الْهُوْنِ ‘‘ اور’’اَلْهَوَانُ‘‘ معنی ذلت، یہ مصدر بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہے۔ ثمود پر آنے والے عذاب کو کہیں ’’ الرَّجْفَةُ ‘‘ (زلزلہ) کہا گیا ہے، کہیں ’’ الصَّيْحَةُ ‘‘ (سخت چیخ) یہاں اسے بجلی کی کڑک کہا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ ایک سخت چیخ تھی جس میں بجلی کی کڑک اور شعلہ تھا، ساتھ ہی شدید زلزلہ تھا جس سے ان کے جگر پھٹ گئے اور سب کے سب ہلاک ہو گئے۔ یہ ذلت کا عذاب ان کے اعمال بد کا انجام تھا۔