فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي أَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَىٰ ۖ وَهُمْ لَا يُنصَرُونَ
پس ہم نے ان پر ایک سخت تیز ہوا (١٢) بھیج دی جو کئی منحوس دنوں تک چلتی رہی، تاکہ ہم انہیں دنیا کی زندگی میں رسوا کن عذاب کا مزا چکھائیں، اور آخرت کا عذاب زیادہ رسوا کن ہوگا اور ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی
1۔ فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا: ’’ صَرْصَرًا ‘‘ ’’صِرٌّ‘‘ (صاد پر کسرہ) سے ہے، سردی کی شدت جو بدن سکیڑ کر رکھ دے، یعنی شدید ٹھنڈی ہوا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ كَمَثَلِ رِيْحٍ فِيْهَا صِرٌّ ﴾ [ آل عمران : ۱۱۷] ’’اس ہوا کی مثال جیسی ہے جس میں سخت سردی ہے۔‘‘ یا ’’صَرَّةٌ‘‘ سے ہے، جس کا معنی ’’خوفناک چیخ‘‘ ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِيْ صَرَّةٍ﴾ [ الذاریات : ۲۹ ] ’’تو اس کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی۔‘‘ یہاں دونوں معنی اکٹھے ملحوظ ہیں کہ وہ ہوا نہایت ٹھنڈی اور خوفناک چیخ جیسی آواز والی تھی۔ ’’ صَرْصَرًا ‘‘ میں حروف مکرر ہونے سے معنی میں مبالغہ پیدا ہو گیا ہے، یعنی ہم نے ان پر نہایت خوفناک آواز والی شدید ٹھنڈی تیز و تند آندھی بھیجی اور اسی ہوا کو جو ان کی زندگی کے قیام اور دل کی راحت کا باعث تھی اور جسے وہ بالکل معمولی اور بے ضرر سمجھتے تھے، ان کی ہلاکت کا سامان بنا دیا اور ان کی کوئی قوت انھیں بچا نہ سکی۔ 2۔ فِيْ اَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ: ’’ نَحِسَاتٍ ‘‘ ’’نَحْسٌ‘‘ (نون کے فتحہ اور حاء کے سکون کے ساتھ) کی جمع ہے، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: ﴿ فِيْ يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ ﴾[القمر: ۱۹]’’ایسے دن میں جو دائمی نحوست والا تھا۔‘‘ ’’ نَحْسٌ‘‘ اور ’’مَنْحُوْسٌ‘‘(بدقسمتی والا) ’’سَعْدٌ‘‘ (خوش قسمتی والا) کی ضد ہے۔ فی الحقیقت اپنی ذات میں کوئی چیز منحوس نہیں، یہ صرف اضافی چیز ہے، یعنی ایک ہی شے کسی کے حق میں خوش قسمتی کا باعث ہوتی ہے اور کسی کے حق میں بدقسمتی کا، جیسا کہ آندھی کے یہ ایام قومِ عاد کے حق میں منحوس تھے مگر ہود علیہ السلام اور ایمان والوں کے لیے ان دنوں سے زیادہ خوش قسمتی والا دن اور کون سا ہو گا۔ اس آندھی کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۷۲)، قمر (۱۸ تا ۲۰)، ذاریات (۴۱، ۴۲) اور سورۂ حاقہ (۶ تا ۸)۔ بعض مسلمان کہلانے والے بھی بعض دنوں کو منحوس سمجھتے ہیں، جیسے دس محرم، کیونکہ اس میں حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے، حالانکہ اس دس محرم کو موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو نجات حاصل ہوئی، جس کی خوشی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے تھے۔ بعض لوگ صفر کے کچھ دنوں کو منحوس سمجھتے ہیں، حالانکہ ایسا عقیدہ باطل ہے۔ 3۔ لِنُذِيْقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا: یہ ذلت و رسوائی ان کے غرور اور تکبر کا جواب تھا کہ وہی زمین جس پر وہ بڑے بنے ہوئے تھے اسی پر ان کے بے جان لاشے کھجور کے کھوکھلے تنوں کی طرح گرے پڑے تھے۔ 4۔ وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَخْزٰى....: یقیناً آخرت کا عذاب زیادہ رسوائی والا ہے، اس لیے کہ وہ تمام پہلے اور پچھلے لوگوں کے سامنے ہو گا، پھر دنیا میں تو ظاہری اسباب کے ساتھ شاید کوئی مدد کے لیے پہنچ جائے، وہاں اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر دنیا کی رسوائی تو ایک وقت تک ہے، جب کہ وہاں کی رسوائی ہمیشہ کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ذلت و رسوائی سے محفوظ رکھے۔ آمین !