سورة فصلت - آیت 15

فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

چنانچہ قوم عاد نے زمین میں ناحق تکبر (١١) کرنا شروع کردیا، اور کہا کہ ہم سے زیادہ قوت میں کون ہے۔ کیا انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ بے شک وہ اللہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے، وہ ان سے زیادہ قوی ہے، اور وہ لوگ ہماری نشانیوں کا انکار کرتے تھے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوْا۠ فِي الْاَرْضِ....: اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد کو ایسے لمبے قد، جسمانی قوت اور دنیوی ترقی کے اسباب عطا فرمائے تھے کہ اس کے فرمان کے مطابق اس جیسی کوئی قوم پیدا ہی نہیں کی گئی، فرمایا : ﴿ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ (6) اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ (7) الَّتِيْ لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ ﴾ [ الفجر : ۶ تا ۸ ] ’’کیا تونے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے عاد کے ساتھ کس طرح کیا۔ (وہ عاد) جو ارم ( قبیلہ کے لوگ) تھے، ستونوں والے۔ وہ کہ ان جیسا کوئی شہروں میں پیدا نہیں کیا گیا۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْعٍ اٰيَةً تَعْبَثُوْنَ (128) وَ تَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ (129) وَ اِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِيْنَ ﴾ [الشعراء : ۱۲۸ تا ۱۳۰ ] ’’کیا تم ہر اونچی جگہ پر ایک یادگار بناتے ہو؟ اس حال میں کہ لاحاصل کام کرتے ہو۔ اور بڑی بڑی عمارتیں بناتے ہو، شاید کہ تم ہمیشہ رہو گے۔ اور جب تم پکڑتے ہو تو بہت بے رحم ہو کر پکڑتے ہو۔‘‘ جب ہود علیہ السلام نے انھیں توحید کی دعوت دی تو انھوں نے یہ جان لینے کے باوجود کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں، محض اپنی بڑائی اور سرداری کے گمان میں انھیں جھٹلا دیا، کیونکہ انھیں رسول ماننے کی صورت میں ان کی اطاعت اختیار کرنا پڑتی تھی، جس کے لیے وہ تیار نہ تھے۔ وَ قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً: جب ہود علیہ السلام نے انھیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو وہ کہنے لگے کہ ہم سے زیادہ قوت والا کون ہے جس سے ہم خوف کھائیں؟ ہم آنے والا ہر عذاب ہٹا سکتے ہیں۔ آج کل بھی ملحد لوگ آسمانی آفات کے متعلق کہتے ہیں کہ ہم ان کا مقابلہ کریں گے۔ شاہ عبد القار لکھتے ہیں : ’’ان کے جسم بڑے بڑے ہوتے تھے، بدن کی قوت پر غرور آیا، غرور کا دم بھرنا اللہ کے ہاں وبال لاتا ہے۔‘‘ (موضح) اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَهُمْ....: ’’ اَوَ لَمْ يَرَوْا ‘‘ کا معنی ’’أَوَ لَمْ يَعْلَمُوْا‘‘ ہے، یہ رؤیت علمی ہے۔ یعنی کیا انھیں معلوم نہ تھا کہ وہ کتنی قوت والے سہی، اس اللہ سے زیادہ قوت والے نہیں ہو سکتے جس نے انھیں پیدا کیا؟ یقیناً انھیں یہ معلوم تھا، استفہام انکاری ہے۔ وَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ: ’’جُحُوْدٌ‘‘ کا معنی ’’جاننے کے باوجود انکار کرنا‘‘ ہے۔ یعنی دل میں ان کا حق ہونا سمجھتے تھے، مگر ضد اور عناد کی وجہ سے انکار کرتے چلے جاتے تھے۔ آیات سے مراد انبیاء پر نازل ہونے والی آیات بھی ہیں، ان کے معجزات بھی اور کائنات میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرت کی پھیلی ہوئی بے شمار نشانیاں بھی۔