إِذْ جَاءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ ۖ قَالُوا لَوْ شَاءَ رَبُّنَا لَأَنزَلَ مَلَائِكَةً فَإِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ
جب ان کے پیغامبر (١٠) ان کے آگے اور ان کے پیچھے سے آئے، اور کہا کہ اللہ کے سوا کی بندگی نہ کرو۔ انہوں نے کہا، اگر ہمارا رب چاہتا تو وہ فرشتوں کو نازل کرتا، پس جو دین دے کر تم بھیجے گئے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں
1۔ اِذْ جَآءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ: دونوں قوموں کی طرف آنے والے دو رسولوں ہود اور صالح علیھما السلام کے لیے جمع کا لفظ استعمال فرمایا ہے، یا مراد دونوں پیغمبروں میں سے ہر ایک کے ساتھ پیغام حق پہنچانے والے مومن بھی ہیں، جنھوں نے ہر طرح اور ہر جانب سے آ کر انھیں اللہ کا پیغام پہنچایا۔ آگے پیچھے سے مراد ہر طرف سے اور ہر طرح سے آ کر سمجھانا ہے، جیسا کہ ابلیس نے کہا تھا : ﴿ ثُمَّ لَاٰتِيَنَّهُمْ مِّنْۢ بَيْنِ اَيْدِيْهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ اَيْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَمَآىِٕلِهِمْ وَ لَا تَجِدُ اَكْثَرَهُمْ شٰكِرِيْنَ﴾ [ الأعراف : ۱۷ ] ’’پھر میں ہر صورت ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی دائیں طرفوں سے اور ان کی بائیں طرفوں سے آؤں گا اور تو ان کے اکثر کو شکر کرنے والے نہیں پائے گا۔‘‘ 2۔ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اللّٰهَ: ’’ أَلَّا ‘‘ ’’أَنْ لَا ‘‘ ہے، اس میں ’’أَنْ‘‘ تفسیریہ ہے، یعنی تمام رسولوں کی دعوت یہ تھی کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو۔ 3۔ قَالُوْا لَوْ شَآءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَلٰٓىِٕكَةً ....: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ ابراہیم (۹، ۱۰) اور سورۂ بنی اسرائیل (۹۴، ۹۵)۔