سورة فصلت - آیت 10

وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اسی نے زمین میں پہاڑ بنا کر اس کے اوپر رکھ دیا ہے، اور اس میں برکت ڈال دی ہے، اور چار دنوں میں اس میں پائے جانے والے اسباب زندگی کا بندوبست کیا، پورے چار دنوں میں ( یہ جواب) پوچھنے والوں کے لئے ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ جَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ: ’’ رَوَاسِيَ ‘‘ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ حجر (۱۹) اور سورۂ انبیاء (۳۱)۔ مِنْ فَوْقِهَا: اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پورے کے پورے زمین کے اندر گاڑ دینے کے بجائے ان کا ایک حصہ زمین کے اوپر رکھا۔ اس میں بے شمار حکمتیں اور آدمی کے لیے فائدے ہیں، کیونکہ اگر پہاڑ پورے ہی زمین کے اندر ہوتے تو آدمی برف کے ان ذخیروں سے فیض یاب نہ ہو سکتا جو پہاڑ محفوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی جنگلوں اور دریاؤں کے یہ سلسلے ہوتے۔ اس کے علاوہ بے شمار سونے، چاندی اور دوسری دھاتوں، گیسوں اور ہیرے جواہرات سے محروم رہتا جو وہ پہاڑوں کے زمین سے اوپر ہونے کی وجہ سے نکالتا ہے۔ وَ بٰرَكَ فِيْهَا: یعنی اس میں خیر کی بے شمار اشیاء کے خزانے رکھ دیے، جن میں درخت اور پودے بھی شامل ہیں۔ مٹی، پتھر، دھاتیں، گیسیں اور دوسرے وہ بے شمار عناصر بھی جو زمین میں موجود ہیں۔ چرند پرند، درندے اور آبی جانور بھی، پوری زمین کو گھیرے ہوئے ہوا بھی اور اس کے تقریباً ستر (۷۰) فی صد حصے پر مشتمل پانی بھی، جن پر زندگی کا دارو مدار ہے اور جن پر ہزاروں لاکھوں سال گزرنے کے باوجود کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ ہر دن نئی سے نئی برکت کا ظہور ہوتا ہے۔ بتاؤ، اللہ کے سوا کون ہے جس نے ان میں سے ایک ہی چیز پیدا کی ہو، جس کی وجہ سے تم نے اسے اپنا حاجت روا اور خدا بنا لیا؟ وَ قَدَّرَ فِيْهَا اَقْوَاتَهَا: ’’أَقْوَاتٌ‘‘ ’’قُوْتٌ‘‘ کی جمع ہے، غذا، خوراک اور روزی۔ زمین کی غذاؤں سے مراد اس میں رہنے والی تمام مخلوقات کی غذائیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے لیے اس کے حسب حال اس کی ضرورت کے مطابق پورے اندازے کے ساتھ رکھ دیں، کسی مخلوق کی غذا کی کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دیکھیے سورۂ حجر (۱۹ تا ۲۱)۔ فِيْ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ: یہاں ایک سوال ہے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مذکور ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش چھ دنوںمیں ہوئی ہے۔ (دیکھیے اعراف : ۵۴۔ یونس : ۳۔ ہود : ۷۔ فرقان : ۵۹۔ سجدہ : ۴۔ ق : ۳۸۔ حدید : ۴) جب کہ ان آیات سے ان کی پیدائش آٹھ دنوںمیں ظاہر ہو رہی ہے، اس لیے کہ پہلے زمین کو دو دنوں میں پیدا کرنے کا ذکر فرمایا، پھر چار دنوں میں اس کے اوپر پہاڑ گاڑنے اور اس میں غذائیں رکھنے کا ذکر فرمایا، اس کے بعد والی آیات میں دو دنوں میں آسمانوں کو پورا کرنے کا ذکر فرمایا، تو یہ کل آٹھ دن بنتے ہیں۔ جواب اس کا یہ ہے کہ زیر تفسیر آیت میں مذکور ’’ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ ‘‘ (چار دن) میں پہلے دو دن بھی شامل ہیں، یعنی زمین کی پیدائش اور اس میں پہاڑ گاڑنے اور غذائیں رکھنے کا کام کل چار دن میں ہوا۔ اس کے بعد دو دنوں میں آسمانوں کی پیدائش کا کام پورا ہوا، یہ کل چھ دن بنتے ہیں۔ مفسر شنقیطی نے فرمایا : ’’اس آیت کی یہ تفسیر جو ہم نے کی ہے اس کے علاوہ کوئی تفسیر کسی طرح بھی درست نہیں۔‘‘ سَوَآءً لِّلسَّآىِٕلِيْنَ: یعنی اللہ تعالیٰ نے روزی کا سوال کرنے والوں کے لیے، خواہ وہ زبان حال سے مانگیں یا زبان قال سے، ان کی خوراکیں پورے اندازے کے ساتھ زمین میں رکھ دی ہیں اور اس کا اندازہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔ مزید دیکھیے سورۂ ابراہیم کی آیت (۳۴) : ﴿ وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ ﴾ کی تفسیر۔ زمین و آسمان کی تمام مخلوق اپنی ہر ضرورت کا سوال اللہ تعالیٰ سے کر رہی ہے اور وہ ہر لمحے اسے پورا کر رہا ہے، جیساکہ فرمایا : ﴿ يَسْـَٔلُهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ﴾ [ الرحمن : ۲۹ ] ’’اسی سے مانگتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔‘‘