فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۚ فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ
پس آپ صبر (٤١) کیجیے، بے شک اللہ کا وعدہ برحق ہے، پھر یا تو ہم آپ کو اس عذاب کا بعض حصہ دکھلا دیں گے جس کا ہم نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے، یا ہم آپ کو (اس کے پہلے ہی) اٹھا لیں گے، تو ان سب کو ہمارے ہی پاس لوٹ کر آنا ہے
1۔ فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ: یعنی یہ لوگ جو آپ کو نیچا دکھانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، آپ ان کی ایذا پر صبر کا دامن تھامے رکھیں، کیونکہ اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے (کہ ہم دنیا اور آخرت میں اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد فرماتے ہیں)۔ ہاں، اس میں کچھ تاخیر ہو سکتی ہے اور اس تاخیر میں بھی ہماری کئی حکمتیں ہیں۔ ہمارا یہ وعدہ دو طرح سے پورا ہو سکتا ہے۔ 2۔ فَاِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ....: ایک یہ کہ ہم آپ کو اس عذاب کا کچھ حصہ دکھا ہی دیں جس کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو پھر آپ دنیا ہی میں ہماری مدد کا نقشہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور ان کا عبرتناک انجام دیکھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں گی، جیسا کہ بدر اور فتح مکہ میں ہوا۔ ’’ فَاِمَّا نُرِيَنَّكَ ‘‘ کا یہ جواب یہاں مقدر ہے اور سیاق سے خود بخود سمجھ میں آ رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہم تجھے دنیا میں ان کا انجام دکھانے سے پہلے اٹھا لیں، تب بھی یہ لوگ کہیں بھاگ کر نہیں جا سکتے، بلکہ انھیں ہمارے پاس ہی واپس لایا جائے گا اور وہاں ان پر عذاب کا وعدہ پورا ہو گا جو آپ کی اور اہلِ ایمان کی نصرت کا ایک اظہار ہو گا۔