سورة غافر - آیت 64

اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ فَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اللہ نے ہی تمہارے لئے زمین کو ثابت (٣٦) اور آسمان کو چھت بنا دیا ہے، اور تمہاری صورتیں بنائیں، تو تمہیں اچھی شکل و صورت دی، اور تمہیں بطور روزی عمدہ چیزیں عطا کی، وہی اللہ تمہارا رب ہے، پس اللہ عالی شان والا ہے، سارے جہان کا پالنہار ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا....: اس سے پہلے لیل و نہار کے ذکر کے ساتھ زمانی نعمتوں کا ذکر فرمایا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان پر اپنی بے شمار نعمتوں میں سے مزید پانچ نعمتوں کا ذکر فرما کر اپنے اکیلے رب ہونے کی یاد دہانی فرمائی۔ ان نعمتوں کا تعلق مکان سے ہے یا انسان کی ذات سے۔ پہلی نعمت زمین کو رہنے کی جگہ بنانا ہے۔ اس میں کئی چیزیں شامل ہیں، ایک یہ کہ اس نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ہچکولے کھاتی تھی، پھر اس میں ایسے توازن و تناسب سے پہاڑ گاڑ دیے کہ وہ انسانوں اور تمام جانداروں کے لیے جائے قرار بن گئی۔ اگر اس میں مسلسل زلزلے کی کیفیت رہتی تو کوئی متنفس اس پر نہ بس سکتا۔ (دیکھیے نحل : ۱۵۔ انبیاء : ۳۱۔ لقمان : ۱۰) دوسری یہ کہ زمین انسان کو اور تمام جانداروں کو زندگی میں بسیرا مہیا کرتی ہے اور مرنے کے بعد بھی انھیں سمیٹتی ہے، اگر اس میں یہ وصف نہ ہوتا تو تعفن کی وجہ سے کوئی جاندار زندہ و سلامت نہ رہتا۔ (دیکھیے مرسلات : ۲۵، ۲۶) اور تیسری یہ کہ انسان کی تمام ضروریات کھانا پینا اور لباس وغیرہ سب زمین سے وابستہ ہیں، اگر اللہ تعالیٰ اس میں یہ صفت نہ رکھتا تو کوئی جاندار یہاں زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ بات بیان ہوئی ہے۔ دوسری نعمت آسمان کو چھت بنانا ہے، چھت بھی ستونوں کے بغیر اور گرنے سے اور ہر قسم کی آفات سے محفوظ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ انبیاء (۳۲)، رعد (۲) اور لقمان (۱۰)۔ تیسری نعمت انسان کی صورت بنانا ہے، وہ بھی نہایت اہتمام کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے۔ (دیکھیے سورۂ ص : ۳۸) چوتھی نعمت انسان کی صورت اچھی بنانا ہے، دوسرے جانوروں کے برعکس وہ سیدھے قد کے ساتھ دو پاؤں پر چلتا ہے اور ہاتھ کے ساتھ کھاتا پیتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت (۷۰) : ﴿ وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ ....﴾ کی تفسیر دیکھیں۔ پانچویں نعمت ’’طیبات‘‘ (پاکیزہ چیزیں) بطور رزق عطا کرنا ہے۔ ’’الطَّيِّبٰتِ ‘‘ کا لفظ حرام و حلال کے سلسلے میں آئے تو مراد حلال چیزیں ہوتی ہیں اور انعام کے طور پر ذکر کیا جائے تو اس سے مراد لذیذ چیزیں ہوتی ہیں۔ یہاں یہی مراد ہے، کیونکہ تمام جانوروں کے برعکس انسان کی خوراک ہر چیز میں سے اس کا لذیذ ترین حصہ ہے۔ خوراک کے علاوہ اس میں نکاح، لباس، زینت اور بود و بوش کی بے شمار طیبات شامل ہیں۔ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ: اس کی تفسیر پچھلی آیات میں گزر چکی ہے۔ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ: ’’تَبَارَكَ‘‘ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ ملک کی پہلی آیت۔