إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۙ إِن فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَّا هُم بِبَالِغِيهِ ۚ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
بے شک جو لوگ اللہ کی آیتوں میں بغیر کسی دلیل (٢٩) کے جو ان کے پاس (اللہ کی طرف سے) آئی ہو جھگڑتے ہیں، ان کے سینوں میں کبرو غرور چھپا ہوا ہے، وہ اپنا مقصد کبھی حاصل نہیں کر پائیں گے، پس آپ اللہ کی پناہ مانگئے، وہ بے شک خوب سننے والا، بڑا دیکھنے والا ہے
1۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْ اٰيٰتِ اللّٰهِ....: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو ٹھکرانے کے لیے جھگڑتے اور کج بحثی کرتے ہیں اس کا سبب یہ نہیں کہ ان آیات کو سمجھنا کچھ مشکل ہے، یا ان کے مضامین (توحید، قیامت اور رسالت وغیرہ) کے لیے بیان کردہ دلائل کم یا کمزور ہیں، بلکہ اس کا باعث ان لوگوں کا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور اپنے مقام سے بہت اونچا بننے کی خواہش و کوشش ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی رسول پر ایمان لا کر اس کے تابع فرمان ہونا انھیں گوارا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی جھوٹی بڑائی برقرار رکھنے کے لیے رسول کو جھٹلاتے ہیں، حق کا انکار کرتے ہیں، مسلمانوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور انھیں نیچا دکھانے کے لیے ہر ذلیل سے ذلیل حربہ اختیار کرتے ہیں۔ 2۔ مَا هُمْ بِبَالِغِيْهِ: ’’باء‘‘ کے ساتھ ’’ مَا ‘‘ نافیہ کی تاکید ہو رہی ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’جس تک وہ ہر گز پہنچنے والے نہیں۔‘‘ یعنی ان جھوٹے اور حقیر لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں اپنے لیے جو بڑائی سوچ رکھی ہے وہ انھیں ہر گز میسر نہیں ہو سکے گی اور نہ ہی وہ کسی صورت اس مقام تک پہنچنے والے ہیں۔ 3۔ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ: یعنی جس طرح موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی طرف سے قتل کی دھمکی پر ہر متکبر سے رب تعالیٰ کی پناہ مانگی، جو یومِ حساب پر ایمان نہ رکھتا ہو، اسی طرح آپ بھی ایسے تمام متکبروں اور ان کی ظاہری مخالفت اور پوشیدہ سازشوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیں۔ 4۔ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ: وہی ہے جو ہر بلند اور آہستہ بات کو سنتا اور ہر ظاہر اور پوشیدہ کو دیکھتا ہے۔ وہی آپ کو ہر قسم کے نقصان سے بچا سکتا ہے اور بچائے گا۔