فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ
پس اے میرے نبی ! آپ صبر کیجیے، بے شک اللہ کا وعدہ بر حق ہے، اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیے، اور شام کو اور صبح کے وقت اپنے رب کی تعریف اور پاکی بیان کرتے رہیے
1۔ فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ: موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور آلِ فرعون کی طرف سے جو ایذائیں پہنچیں، جن پر انھوں نے صبر کیا اور اس کے انعام کے طور پر اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی تائید و نصرت سے نوازا، اس کے ذکر کے بعد اب ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے امت کے ہر آدمی کو تلقین کی جا رہی ہے کہ وہ دعوتِ حق میں پیش آنے والی مشکلات اور کفار کی طرف سے ملنے والی ایذاؤں پر صبر کریں، یقیناً اللہ تعالیٰ کا مدد کا وعدہ حق ہے، اس لیے بے صبری یا جلد بازی مت کریں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ﴾ [ الأحقاف : ۳۵ ] ’’پس صبر کر جس طرح پختہ ارادے والے رسولوں نے صبر کیا اور ان کے لیے جلدی کا مطالبہ نہ کر۔‘‘ 2۔ وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ: اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور امت کے ہر فرد کو استغفار کا حکم ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے : (( وَاللّٰهِ! إِنِّيْ لَأَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً )) [بخاري، الدعوات، باب استغفار النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الیوم واللیلۃ : ۶۳۰۷ ] ’’اللہ کی قسم! میں ہر روز ستر (۷۰) سے زیادہ مرتبہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔‘‘ یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے اور پچھلے گناہ معاف فرما دیے تھے، جیسا کہ سورۂ فتح (۲) میں ہے، پھر استغفار کا حکم کیوں دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سورۂ مومن مکی سورت ہے، جو اس بشارت سے پہلے کی ہے، اس لیے اس پر یہ سوال وارد ہی نہیں ہوتا، جب کہ سورۂ فتح ۶ ہجری میں اتری۔ البتہ سورۂ نصر میں مذکور آیت (۳) : ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ ﴾ پر یہ سوال وارد ہوتا ہے، کیونکہ یہ سورت فتح مکہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب اتری۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں : (( كَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يُكْثِرُ أَنْ يَقُوْلَ فِيْ رُكُوْعِهِ وَسُجُوْدِهِ سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِكَ، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ، يَتَأَوَّلُ الْقُرْآنَ )) [ بخاري، الأذان، باب التسبیح والدعاء في السجود : ۸۱۷ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجود میں کثرت سے کہا کرتے تھے : ’’ سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِكَ، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِيْ ‘‘ ’’اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! تو (ہر عیب سے) پاک ہے اور اپنی تعریف کے ساتھ، اے اللہ! مجھے بخش دے‘‘ آپ قرآن کے حکم پر عمل کرتے تھے۔‘‘ جواب اس کا یہ ہے کہ ہر آدمی کا گناہ اس کے مرتبے کو پیش نظر رکھ کر ہوتا ہے، سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم معمولی سی غفلت کے لیے بھی استغفار ضروری سمجھتے تھے۔ اغر مزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّهُ لَيُغَانُ عَلٰی قَلْبِيْ وَإِنِّيْ لَأَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ )) [ مسلم، الذکر والدعاء، باب استحباب الاستغفار والاستکثار منہ : ۲۷۰۲ ] ’’میرے دل پر ہلکا سا پردہ آ جاتا ہے اور میں دن میں سو مرتبہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں۔‘‘ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ’’حضرت رسول خدا ( صلی اللہ علیہ وسلم ) دن میں سو سو بار گناہ سے استغفار کرتے تھے۔ ہر بندے سے تقصیر ہوتی ہے، اس کے موافق ہر کسی کو استغفار ضروری ہے۔‘‘ (موضح) 3۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گناہوں سے استغفار کا حکم ہے، اس سے مراد امت کے گناہوں کے لیے استغفار ہے، مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ سورۂ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں یہ تاویل ممکن نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ۠ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَ مَثْوٰىكُمْ﴾ [محمد : ۱۹ ] ’’پس جان لے کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہ کی معافی مانگ اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے بھی اور اللہ تعالیٰ تمھارے چلنے پھرنے اور تمھارے ٹھہرنے کو جانتا ہے۔‘‘ 4۔ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَ الْاِبْكَارِ: اللہ تعالیٰ کی مدد کے وعدے کا حق دار بننے کے لیے صبر اور استغفار کے ساتھ ساتھ صبح و شام رب تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرتے رہنے کا حکم دیا۔ اس میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا بھی شامل ہے اور نماز بھی، کیونکہ صبر اور نماز ہی اللہ تعالیٰ سے استعانت کا ذریعہ ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ ﴾ [ البقرۃ : ۴۵ ] ’’اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو۔‘‘ تسبیح و تحمید سے مراد نماز ہونے کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ طٰہٰ (۱۳۰) کی تفسیر۔