سورة غافر - آیت 47

وَإِذْ يَتَحَاجُّونَ فِي النَّارِ فَيَقُولُ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا نَصِيبًا مِّنَ النَّارِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب جہنمی آگ میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے (٢٥) تو کمزور لوگ تکبر کرنے والوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہاری پیروی کرتے تھے، تو کیا آج عذاب نار کے کسی حصہ سے تم ہمیں نجات دلا سکتے ہو

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِذْ يَتَحَآجُّوْنَ فِي النَّارِ فَيَقُوْلُ الضُّعَفٰٓؤُا ....: فرعون اور آنکھیں بند کرکے اس کے پیچھے چلنے والوں کا انجام آگ اور قیامت کے دن ’’ اَشَدَّ الْعَذَابِ ‘‘ بیان فرمانے کے بعد بتایا کہ صرف فرعون ہی نہیں، ہر متکبر اور اس کے اندھا دھند پیروکار جہنم میں جائیں گے اور وہاں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے۔ ’’ يَتَحَآجُّوْنَ ‘‘ (ایک دوسرے سے جھگڑیں گے) کے لفظ سے ظاہر ہے کہ کمزور لوگوں کا بڑا بننے والوں سے کہنا : ﴿ اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِيْبًا مِّنَ النَّارِ﴾ (کہ ہم دنیا میں تمھارے تابع تھے، تو کیا تم ہم سے آگ کا کوئی حصہ ہٹاؤ گے؟) ان سے آگ ہٹانے کی درخواست کے لیے نہیں ہو گا، بلکہ انھیں ذلیل کرنے کے لیے اور اپنے دل کا ابال نکالنے کے لیے ہو گا۔ ان بڑے بننے والوں کے پاس بھی یہ کہنے کے سوا کچھ نہیں ہو گا کہ ہم خود آگ میں ہیں، تمھارے کس کام آ سکتے ہیں!؟ اس پر وہ ایک دوسرے کو لعنت کریں گے، مگر کسی کو کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جھگڑے کا کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۶۶، ۱۶۷)، سورۂ ابراہیم (۲۱، ۲۲)، سورۂ اعراف (۳۸، ۳۹) اور سورۂ سبا (۳۱ تا ۳۳)۔ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ: یعنی اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نازل ہو چکا، اب تم اپنی سزا بھگتو ہم اپنی بھگت رہے ہیں، اس عذاب میں کمی بیشی ہمارے بس میں نہیں ہے۔