يَا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ فَمَن يَنصُرُنَا مِن بَأْسِ اللَّهِ إِن جَاءَنَا ۚ قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَىٰ وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ
اے میری قوم کے لوگو ! آج تو تمہاری بادشاہی (١٧) ہے، ملک میں تم کو غلبہ حاصل ہے، لیکن اگر (کل) اللہ کے عذاب نے ہمیں آلیا، تو ہماری کون مدد کرے گا۔ فرعون نے کہا کہ میں تو تمہیں وہی سجھا رہا ہوں جو میں مناسب سمجھ رہا ہوں، اور میں تو تمہیں وہ راہ دکھا رہا ہوں جسے اختیار کرنے میں ہی تمہاری خیر ہے
1۔ يٰقَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ....: اس مرد مومن نے ’’اے میری قوم!‘‘ کہہ کر ان کے ساتھ اپنے اس تعلق کا اظہار کیا جو وہ فرعون کے خاندان کا ایک قبطی فرد ہونے کی بنا پر ان سے رکھتا تھا اور ’’ الْيَوْمَ ‘‘ (آج) کہہ کر اس نے انھیں زمانے کے انقلابات کی طرف توجہ دلائی کہ یہ غلبہ و اقتدار دائمی چیز نہیں، اگر یہ کل یوسف( علیہ السلام ) اور ان کے جانشین اسرائیلیوں کے پاس تھا اور آج اس سر زمین مصر میں تمھارے پاس ہے اور تم اسرائیلیوں پر غالب ہو تو اسرائیلیوں کی طرح تم سے بھی چھن سکتا ہے اور کفر و شرک اور ظلم و تعدی کی وجہ سے پہلی اقوام کی طرح تم بھی اللہ کے عذاب کا نشانہ بن سکتے ہو۔ تو اگر وہ آگیا تو ہمیں اس سے کون بچائے گا ؟ ’’ الْاَرْضِ ‘‘ میں ’’الف لام‘‘ عہد کا ہونے کی وجہ سے ترجمہ ’’اس سرزمین‘‘ کیا گیا ہے، مراد مصر ہے۔ 2۔ قَالَ فِرْعَوْنُ مَا اُرِيْكُمْ اِلَّا مَا اَرٰى: بعض مفسرین کا خیال ہے کہ فرعون کو پتا نہیں چل سکا کہ موسیٰ علیہ السلام کے قتل کے فیصلے کے خلاف رائے دینے والا شخص حقیقت میں ان پر ایمان لا چکا ہے، اس لیے فرعون نے اس کی اس جرأت پر کوئی گرفت نہیں کی۔ مگر زیادہ قرین قیاس بات یہ ہے کہ وہ پہلے ہی موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ معجزوں اور ہیبت کی وجہ سے خوف زدہ تھا، جس کی دلیل اس کا یہ کہنا ہے : ﴿ ذَرُوْنِيْ اَقْتُلْ مُوْسٰى﴾ [ المؤمن : ۲۶ ] ’’مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ کو قتل کر دوں‘‘ اب اس نے دیکھا کہ اس کے خاص لوگوں میں بھی موسیٰ علیہ السلام کی حمایت آگئی ہے تو اسے جرأت ہی نہیں ہوئی کہ اس مرد مومن کو کچھ کہے اور نہ ہی وہ اس کی کسی دلیل کا جواب دے سکا، بلکہ اس نے جواب سے گریز اختیار کیا اور اپنے سرداروں اور قوم کے لیے اپنے اخلاص کا اظہار کیا کہ میں تمھارے لیے وہی سوچتا ہوں جو اپنے لیے سوچتا ہوں اور تمھارے سامنے وہی رائے پیش کرتا ہوں جو میری بہترین سوچ کا نتیجہ ہے۔ مگر اس مُسرف و کذاب کا یہ کہنا سراسر جھوٹ تھا، کیوں کہ وہ دل سے موسیٰ علیہ السلام کو سچا جان چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جھوٹ متعدد آیات میں بیان فرمایا ہے۔ (دیکھیے نمل : ۱۲ تا ۱۴۔ بنی اسرائیل : ۱۰۲) اس کا مقصد اپنی قوم کو بے وقوف بنانا تھا اور واقعی اس نے انھیں بے قوف بنا لیا، جیسا کہ سورۂ زخرف میں ہے : ﴿ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ ﴾ [ الزخرف : ۵۴ ] ’’غرض اس نے اپنی قوم کو ہلکا (بے وزن) کر دیا تو انھوں نے اس کی اطاعت کر لی، یقیناً وہ نافرمان لوگ تھے۔‘‘ اس کے علاوہ اس کا یہ کہنا کہ ’’ میں تمھارے لیے وہی سوچتا ہوں جو اپنے لیے سوچتا ہوں‘‘ اس لیے بھی صاف جھوٹ تھا کہ اپنے لیے تو وہ رب الاعلیٰ سے نیچے کسی مقام پر قناعت کے لیے تیار نہ تھا، مگر قوم کے لیے اس کے پاس انھیں اپنا غلام بنا کر رکھنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ آج کے حکمرانوں کے قول و عمل کا بھی یہی حال ہے۔ 3۔ وَ مَا اَهْدِيْكُمْ اِلَّا سَبِيْلَ الرَّشَادِ: اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں واضح فرمایا کہ اس کا یہ کہنا بھی غلط تھا کہ ’’میں تمھیں بھلائی کا راستہ ہی بتا رہا ہوں۔‘‘ دیکھیے سورۂ ہود (۹) اور سورۂ طٰہٰ (۷۹)۔