أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ كَانُوا مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا هُمْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَمَا كَانَ لَهُم مِّنَ اللَّهِ مِن وَاقٍ
کیا انہوں نے زمین کی سیر (١٢) کرکے دیکھا نہیں کہ ان کافروں کا کیا انجام ہوا جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں، وہ لوگ ان سے زیادہ طاقت والے، اور زمین میں اپنے آثار کے طور پر زیادہ عمارتوں اور قلعوں والے تھے، پس اللہ نے ان کے گناہوں کے سبب انہیں پکڑ لیا، اور اللہ سے ان کو بچانے والا کوئی نہیں ملا
1۔ اَوَ لَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ ....: گزشتہ آیات میں کفار کو آخرت کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے، اب دنیا میں آنے والے عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے کہ کیا ان لوگوں نے زمین میں چل پھر کر ان قوموں کا انجام نہیں دیکھا جو ان سے پہلے انبیاء کو جھٹلانے کے جرم میں ہلاک کی گئیں؟ 2۔ كَانُوْا هُمْ اَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَّ اٰثَارًا فِي الْاَرْضِ....: اس کی مفصل تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ روم کی آیت (۹ ) کی تفسیر۔ 3۔ وَ مَا كَانَ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ وَّاقٍ: ’’ وَاقٍ ‘‘ اصل میں ’’وَاقِيٌ‘‘ ہے، جو ’’وَقٰي يَقِيْ وِقَايَةً‘‘ (ض) سے اسم فاعل ہے، بچانے والا۔ یعنی ان سے زیادہ قوت و آثار والی اقوام پر ان کے گناہوں کی وجہ سے جب اللہ تعالیٰ کی گرفت آئی تو انھیں اللہ تعالیٰ سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ اسی طرح جب ان لوگوں پر اللہ کا عذاب آیا تو انھیں بھی کوئی نہیں بچا سکے گا۔