سورة الزمر - آیت 42

اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اللہ روحوں (٢٧) کو ان کی موت کے وقت پورے طور پر لے لیتا ہے، اور جن کی موت نہیں آئی انہیں نیند کی حالت میں لے لیتا ہے، پھر جن کی موت کا فیصلہ کردیتا ہے انہیں روک لیتا ہے، اور باقی روحوں کو ان کے وقت مقرر تک کے لئے چھوڑ دیتا ہے، بے شک اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا ....: اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ آدمی کی جان موت کے وقت بھی قبض کرتا ہے اور نیند کے وقت بھی۔ گویا نیند بھی ایک طرح کی موت ہے، مگر اس میں روح قبض ہونے کے باوجود جسم کے ساتھ اس کا ایسا تعلق باقی رہتا ہے جس سے نبض چلتی، کھانا ہضم ہوتا اور سانس جاری رہتا ہے۔ اس تعلق کی پوری حقیقت ہم نہیں جانتے، کیونکہ روح کے معاملات کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، فرمایا : ﴿وَ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَ مَا اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا ﴾ [ بني إسرائیل : ۸۵ ] ’’اور وہ تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمھیں علم میں سے بہت تھوڑے کے سوا نہیں دیا گیا۔‘‘ مگر اس کی ایک ادنیٰ سی مثال، جو پوری مثال نہیں ہے، بجلی کا کرنٹ ہے کہ اس کا مرکز کسی جگہ ہوتا ہے مگر ہزاروں میل دور اس کا تعلق کسی اور چیز سے بھی ہوتا ہے، جیسے ریڈیو، ٹیلی وژن، ریموٹ وغیرہ۔ اس سے عذاب قبر پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ موت کے بعد روح قبض ہونے کے باوجود اس کا جسم کے ساتھ اللہ کے حکم سے کوئی ایسا تعلق رہتا ہے کہ اس پر قبر میں عذاب و ثواب کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے، انسان اپنے ناقص علم کی وجہ سے اسے سمجھ نہیں سکتا۔ اس لیے بعض لوگوں نے عذاب قبر کا انکار ہی کر دیا، حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کے صاف دلائل موجود ہیں اور مومن کا کام یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہر حال میں مانے، خواہ اس کی کیفیت اسے بتائی جائے یا نہ بتائی جائے۔ 2۔ نیند کی حالت میں جان قبض ہونے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر موت کا لفظ استعمال فرمایا، اگرچہ یہ بڑی اور آخری موت سے پہلے موت کی ایک قسم ہے، جو زندگی میں آدمی پر بار بار آتی اور جاتی ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿وَ هُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ وَ يَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ﴾ [ الأنعام : ۶۰ ] ’’اور وہی ہے جو تمھیں رات کو قبض کر لیتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم نے دن میں کمایا۔‘‘ حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( كَانَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ إِذَا أَوٰی إِلٰی فِرَاشِهِ قَالَ بِاسْمِكَ أَمُوْتُ وَ أَحْيَا وَ إِذَا قَامَ قَالَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَ إِلَيْهِ النُّشُوْرُ )) [ بخاري، الدعوات، باب ما یقول إذا نام : ۶۳۱۲ ] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بستر پر جاتے توکہتے : ’’تیرے ہی نام کے ساتھ مرتا ہوں اور زندہ ہوتا ہوں۔‘‘ اور جب بیدار ہوتے توکہتے : ’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں زندگی بخشی، اس کے بعد کہ اس نے ہمیں موت دی اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے۔‘‘ 3۔ بعض اہلِ علم نے یہاں روح کی دو قسمیں بنائی ہیں، ایک روح حیوانی اور ایک روح نفسانی اور بعض نے نفس کو الگ اور روح کو الگ قرار دیا ہے، مگر یہ بات قرآن یا حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ جس طرح قرآن مجید میں نیند کے وقت نفسوں کو قبض کرنے کا ذکر ہے اسی طرح بخاری، ابوداؤد، نسائی اور مسند احمد وغیرہ میں نیند کے وقت ارواح کو قبض کرنے کا ذکر ہے۔ چنانچہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ رضی اللہ عنھم کے رات کے سفر کے دوران سو جانے کا اور سورج نکلنے کے بعد بیدار ہونے کا ذکر کیا ہے، اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِيْنَ شَاءَ، وَ رَدَّهَا عَلَيْكُمْ حِيْنَ شَاءَ)) [بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب الأذان بعد ذھاب الوقت : ۵۹۵ ] ’’اللہ تعالیٰ نے تمھاری ارواح کو قبض کر لیا جب چاہا اور انھیں تمھیں واپس کر دیا جب چاہا۔‘‘ اس بحث سے معلوم ہوا نیند کے وقت قبض ہونے والی چیز نفس بھی کہلاتی ہے اور روح بھی۔ وَ يُرْسِلُ الْاُخْرٰى اِلٰى اَجَلٍ مُّسَمًّى : مقرر وقت سے مراد بڑی اور آخری موت ہے۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ: غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں، جن میں سب سے پہلی تو اللہ کا وحدہ لا شریک لہ ہونا ہے کہ موت و حیات اور سلانے اور جگانے کا سلسلہ صرف اس کے ہاتھ میں ہے، اگر اس کا کوئی شریک ہوتا تو یہ اختیار یا اس کا کچھ حصہ اس کے پاس بھی ہوتا، اس لیے ہر طرح کی عبادت کا حق دار اللہ تعالیٰ ہے، یہی دلیل اللہ کے خلیل علیہ السلام نے پیش فرمائی تھی : ﴿ رَبِّيَ الَّذِيْ يُحْيٖ وَ يُمِيْتُ﴾ [ البقرۃ : ۲۵۸ ] ’’میرا رب وہ ہے جو زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے۔‘‘ دوسری نشانی یہ ہے کہ جو پروردگار ہر روز موت دیتا ہے اور مرنے کے بعد زندگی عطا کرتا ہے وہ قیامت کے دن بھی تمام مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے اور یقیناً انھیں زندہ کرے گا اور وہی اکیلا سب کا فیصلہ کرے گا، کوئی اس کی مرضی کے بغیر سفارش بھی نہیں کر سکے گا، جیسا کہ اگلی آیت میں آ رہا ہے۔