إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ
اے میرے نبی ! آپ بھی مر (٢١) جائیں گے اور یہ لوگ بھی مر جائیں گے
1۔ اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّ اِنَّهُمْ مَّيِّتُوْنَ: یعنی اگر یہ نہیں مانتے تو نہ مانیں، ہمیشہ نہ تجھے رہنا ہے نہ ان کو، یقیناً تو مرنے والا ہے اور یقیناً وہ بھی مرنے والے ہیں۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وعدہ اور بشارت ہے کہ آپ کی دنیا کی محنت و مشقت اور تمام رنج ختم ہونے والے ہیں اور آپ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے اور ہمیشہ کی راحت و آرام والی جنت میں جانے والے ہیں، اور کافروں کے لیے وعید ہے کہ ان کی مہلت ختم ہونے والی ہے اور وہ اپنے رب کے سامنے پیش ہو کر اپنے کفر و شرک کا حساب دینے والے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مسلمانوں کو ان کی موت یاد دلا کر اس کی تیاری کی یاد دہانی بھی ہے۔ 2۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں گے، تاکہ آپ کی موت کے متعلق لوگوں میں اختلاف واقع نہ ہو اور وہ آپ کی پرستش نہ کرنے لگیں، جیسا کہ پہلی امتوں میں اپنے انبیاء کی وفات کے متعلق اختلاف واقع ہوا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر اکثر لوگوں نے تسلیم نہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں، جن میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ اس موقع پر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت اور سورۂ آل عمران کی آیت (۱۴۴) : ﴿ وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰى اَعْقَابِكُمْ ﴾ پڑھ کر اعلان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے۔ [ دیکھیے بخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب : ۳۶۶۷، ۳۶۶۸] سورۂ آل عمران کی آیت (۱۴۴) کی تفسیر بھی دیکھ لیں۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا اور تمام صحابہ کا اتفاق ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل اور کفن دے کر دفن کر دیا، ورنہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ کبھی دفن نہ کرتے۔ افسوس! قرآن کی واضح آیات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اجماع کے باوجود کچھ لوگوں کو اصرار ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اب بھی دنیوی زندگی کے ساتھ زندہ ہیں۔ چنانچہ ایک صاحب لکھتے ہیں : ’’انبیاء کی موت ایک آن کے لیے ہوتی ہے، پھر انھیں حیات عطا فرمائی جاتی ہے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ اگر اس حیات سے مراد برزخ کی زندگی ہے تو وہ تو نیک و بد سب کو عطا ہوتی ہے اور برزخ میں جزا و سزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے انبیاء کی شان سب سے اونچی ہے اور ان کو عطا ہونے والے انعامات بھی بے حساب ہیں، اس زندگی سے کسی کو بھی انکار نہیں، مگر اس کے لیے موت ضروری ہے، کیونکہ یہ موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔ لیکن اگر ایک آن کے بعد انھیں دنیوی زندگی عطا کر دی جاتی ہے، تو پھر انبیاء کے جاں نثار صحابہ انھیں دفن کیوں کر دیتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے دن فوت ہوئے اور بدھ کے دن آپ کو دفن کیا گیا، تو کیا اس وقت تک وہ آن پوری نہ ہوئی تھی اور صحابہ کو معلوم نہ ہوا تھا کہ آپ کو پھر حیات عطا ہو چکی ہے۔ کیا انھوں نے یہ جانتے ہوئے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کرنے پر اتفاق کر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ دفن کر دیا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی زندہ ہونے کے باوجود خاموشی کے ساتھ دفن ہو گئے؟ ﴿فَمَالِ هٰؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا ﴾ [ النساء : ۷۸ ] ’’تو ان لوگوں کو کیا ہے کہ قریب نہیں ہیں کہ کوئی بات سمجھیں۔‘‘