سورة الزمر - آیت 29

ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اللہ تعالیٰ ایک ایسے شخص (یعنی غلام) کی مثال (٢٠) بیان کرتا ہے جس میں کئی جھگڑا لو آدمی شریک ہیں، اور ایک ایسے شخص کی جو خالص ایک آدمی کی ملکیت ہے، کیا دونوں حالات میں برابر ہو سکتے ہیں، ہر قسم کی تعریف صرف اللہ کے لئے ہے، بلکہ اکثر لوگ صحیح علم نہیں رکھتے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا....: ’’رَجُلٌ شَكِسٌ‘‘ ضدی، بدخلق، جھگڑنے والا آدمی۔ ’’ مُتَشٰكِسُوْنَ ‘‘ باب تفاعل سے جمع مذکر اسم فاعل ہے، اس باب میں تشارک پایا جاتا ہے، ایک دوسرے سے ضد کرنے والے، جھگڑنے والے۔ یہ مشرک اور موحّد کی مثال ہے، مشرک جو کئی معبودوں کی عبادت کرتا ہے اس کی مثال اس آدمی کی ہے جو کئی آقاؤں کا غلام ہے، جو اس کے مالک ہونے میں شریک ہیں اور سب بدخو، ضدی اور ایک دوسرے سے جھگڑنے والے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ غلام اسی کے کام میں لگا رہے اور ہر ایک اسے اپنے مطلب کا حکم دیتا ہے، اسے دوسروں کے کام سے کوئی سروکار نہیں، وہ حیران ہے کہ کس کا حکم بجا لائے۔ پھر ان میں سے کوئی بھی اس غلام کی ضروریات کا ذمہ دار بننے کے لیے تیار نہیں، بلکہ ہر ایک اسے دوسرے کے حوالے کرتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ نہ وہ ان میں سے کسی کو خوش کر سکتا ہے نہ اس کی کوئی حاجت یا ضرورت پوری ہوتی ہے۔ اس کی زندگی جس قدر تنگ ہو گی، بخوبی ظاہر ہے۔ اس کے مقابلے میں موحّد کی مثال اس آدمی کی ہے جو صرف ایک آقا کا غلام ہے، اسی کی خدمت کرتا ہے اور اسی کے سامنے اپنی ہر حاجت اور ضرورت پیش کرتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ آدمی نہایت اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کر ے گا۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ایک غلام جو کئی کا ہو، کوئی اس کو اپنا نہ سمجھے تو اس کی پوری خبر نہ لے اور ایک غلام جو سارا ایک کا ہو، وہ اس کو اپنا سمجھے اور پوری خبر لے، یہ مثال ہے ان کی جو ایک رب کے بندے ہیں اور جو کئی رب کے بندے ہیں۔‘‘ (موضح) اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ: یہاں ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان مشرکوں میں سے کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں، بلکہ یا تو وہ تسلیم کریں گے کہ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے، یا پھر خاموشی اختیار کریں گے، دونوں صورتوں میں توحید کی خوبی اور شرک کی برائی ثابت ہو جائے گی۔ اس پر فرمایا، سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ایسی بہترین اور آسان مثال کے ساتھ توحید کا مسئلہ واضح فرمایا۔ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ : یعنی ایک آقا کی غلامی اور بہت سے آقاؤں کی غلامی کا فرق ماننے کے باوجود اکثر لوگ ایک اللہ کی عبادت اور بہت سے معبودوں کی عبادت کا فرق نہیں جانتے، اس لیے شرک میں گرفتار رہتے ہیں۔