اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ
اللہ نے سب سے اچھا کلام ( ١٧) نازل فرمایا ہے، یعنی ایک کتاب جس کی آیتیں معانی میں ملتی جلتی ہیں، جنہیں بار بار دہرایا جاتا ہے، جنہیں سن کر ان لوگوں کے بدن کانپ جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کی یاد کی طرف مائل ہوتے ہیں، یہ قرآن اللہ کی ہدایت ہے، وہ اس کے ذریعہ جسے چاہتا ہے راہ حق دکھاتا ہے، اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا
1۔ اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ....: ’’ نَزَّلَ ‘‘ کے مفہوم میں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کرنا پایا جاتا ہے، جیساکہ فرمایا : ﴿وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَّ نَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا ﴾ [ بني إسرائیل : ۱۰۶ ] ’’اور عظیم قرآن، ہم نے اس کو جدا جدا کرکے (نازل) کیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھے اور ہم نے اسے نازل کیا، (تھوڑا تھوڑا) نازل کرنا۔‘‘ ’’ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ ‘‘ سے مراد اللہ کا کلام ہے، کیونکہ مخلوق کا کلام کبھی بھی خالق کے کلام جیسے حسن والا نہیں ہو سکتا اور نہ مخلوق اس کی مثال پیش کر سکتی ہے۔ (دیکھیے سورۂ بقرہ : ۲۳، ۲۴) ’’ الْحَدِيْثِ ‘‘ کا معنی ’’نئی‘‘ ہے، چونکہ بات بھی نئی ہوتی ہے، اس لیے اسے ’’حدیث‘‘ کہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے اور اس کا کلام حدیث اور محدث (نیا) ہوتا ہے۔ (دیکھیے سورۂ انبیاء : ۲۔ شعراء : ۵) بعض لوگوں نے یونانی فلسفیوں کا یہ قاعدہ تسلیم کر لیا کہ ہر محل حوادث حادث ہوتا ہے، یعنی جس سے کوئی نئی چیز صادر ہو وہ ہمیشہ سے موجود ہستی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے انھوں نے اللہ تعالیٰ کے سننے، دیکھنے، اترنے چڑھنے، کلام کرنے، ہنسنے، غرض بے شمار صفات کا انکار کر دیا، یا ان کی تاویل کی، حالانکہ یہ قاعدہ قرآن کریم کے صریح خلاف ہے۔ قرآن کے مطابق اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اس کے باوجود وہ سمیع بھی ہے بصیر بھی، خالق بھی ہے رزاق بھی، خوش بھی ہوتا ہے ناراض بھی اور کلام بھی کرتا ہے اور ظاہر ہے کلام الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے، جن میں ترتیب اور حدوث پایا جاتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ ہر آن نئی سے نئی حالت اور نئی سے نئی شان میں ہے، فرمایا : ﴿ يَسْـَٔلُهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ﴾ [ الرحمٰن : ۲۹ ] ’’ اسی سے مانگتا ہے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے، ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔‘‘ یونانی فلسفی چونکہ آسمانی ہدایت کی روشنی سے محروم تھے، اس لیے ان کا فلسفہ قرآن و حدیث سے متصادم ہے اور ان کے ماننے والے قرآن و حدیث پر ایمان کے دعوے کے باوجود ان میں مذکور صفات الٰہی کو ماننے سے دل میں شدید تنگی محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی ایسی ایسی تاویلیں کرتے ہیں جو صریح تحریف ہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ اعراف (۱۴۳)، توبہ (۶)، کہف (۱۰۹)، انبیاء (۲) اور سورۂ شعراء (۵)۔ 2۔ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا : اس مقام پر پورے قرآن کو ’’ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا ‘‘ کہا گیا ہے، یعنی قرآن مجید کی تمام آیات مضامین و معانی میں، تمام خبروں کے سچا ہونے اور تمام احکام کے حق ہونے میں ایک دوسری سے ملتی جلتی اور ایک دوسری کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ اگر ایک جگہ بات مختصر ہے تو دوسری جگہ مفصل ہے، کہیں بھی کوئی اختلاف یا تناقض نہیں ہے، فرمایا : ﴿وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا ﴾ [ النساء : ۸۲ ] ’’اور اگر وہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔‘‘ اسی طرح فصاحت و بلاغت اور حسن و خوبی میں بھی سب ایک جیسی ہیں۔ تیئیس (۲۳) سالوں کے طویل عرصہ میں تھوڑی تھوڑی آیات نازل ہونے کے باوجود کسی بھی مقام پر نہ ان کی حسن و خوبی اور فصاحت و بلاغت میں کوئی تفاوت ہے اور نہ کہیں اس کے جلال اور دبدبے میں کوئی کمی ہے۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ نساء (۸۲) دوسرے مقام پر قرآن کی بعض آیات کو محکم اور بعض کو متشابه کہا گیا ہے، اس کی وضاحت کے لیے دیکھیے سورۂ آل عمران (۷)۔ 3۔ ’’ مَثَانِيَ ‘‘ ’’ثَنٰي يَثْنِيْ‘‘ (رَمٰي يَرْمِيْ) کے اسم مفعول ’’مَثْنِيَّةٌ‘‘ بروزن ’’مَرْمِيَّةٌ‘‘ کی جمع ہے، معنی دوہرا کرنا یا دہرانا ہے۔ یعنی اس کتاب کی آیات بار بار دہرائی جانے والی ہیں، جنھیں عقائد، احکام، قصص اور ترغیب و ترہیب کو ذہن نشین کرانے کے لیے بار بار، کہیں ایک ہی طرح اور کہیں مختلف انداز میں دہرایا گیا ہے، تاکہ خوب ذہن نشین ہو جائیں اور اگر ایک جگہ بات پوری طرح سمجھ میں نہ آئے تو دوسری جگہ خوب واضح ہو جائے۔ لطف یہ کہ نہ اس کے مختلف مضامین بار بار دہرانے سے طبیعت اکتاتی ہے اور نہ ہی کوئی ایک سورت یا آیت بار بار پڑھنے سے دل سیر ہوتا ہے۔ ’’ مَثَانِيَ ‘‘ کے مفہوم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ عموماً کسی بات کے ذکر کے ساتھ اس کے مقابل کا بھی ذکر ہے، مثلاً ایمان و کفر، جنت و جہنم، ابرار و فجار، ترغیب و ترہیب اور رحمت و عذاب وغیرہ۔ 4۔ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ....: یعنی جب ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے جلال و قہر کا، یا اس کے عذاب کا ذکر ہوتا ہے تو خوف کی وجہ سے اپنے رب سے ڈرنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، پھر جب اس کی رحمت و مغفرت کا ذکر آتا ہے تو ان کے چمڑے اور دل امید کی بدولت نرم ہو کر اللہ کی یاد کی طرف جھک جاتے ہیں۔ ’’ تَلِيْنُ ‘‘ کے ضمن میں ’’تَمِيْلُ‘‘ کا معنی ہونے کی وجہ سے اسے ’’ اِلٰى ‘‘ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اس کیفیت کے لیے دیکھیے سورۂ انفال (۲تا۴)، مومنون (۵تا ۱۶) اور سورۂ مائدہ (۸۳، ۸۴)۔