إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَن تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُم مِّنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۚ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
بے شک جن لوگوں (82) نے کفر کو قبول کرلیا، ان کے اموال اور ان کی اولاد اللہ کے مقابلہ میں کچھ بھی کام نہ آئے گی، اور وہی لوگ جہنمی ہیں، وہ لوگ اس میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے
1۔ لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ:یعنی جو مال خرچ کیا اور اللہ کی رضا پر نہ دیا، آخرت میں دیا نہ دیا برابر ہے۔ (موضح) عام طور پر مصیبت کے وقت اولاد انسان کے کام آتی ہے، مگر اس وقت کفار کی اولاد ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔ اوپر کی آیات میں مومن اور متقی کے نیک اعمال کا انجام ذکر فرمایا کہ ان کی ادنیٰ سے ادنیٰ نیکی بھی ضائع نہیں ہو گی، بلکہ اس کا پورا پورا بدلہ ملے گا، اب اس آیت میں کافر کے صدقہ و خیرات اور رفاہی کاموں کو آخرت میں بے فائدہ اور ضائع ہونے کے اعتبار سے ان لوگوں کی کھیتی سے تشبیہ دی ہے جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، جو کھیتی دیکھنے میں سرسبز و شاداب نظر آئے لیکن یکایک سخت سرد ہوا چلے اور اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دے۔ یہی حال کفار کے صدقہ و خیرات کا ہے، وہ چونکہ ایمان و اخلاص کی دولت سے محروم ہیں، اس لیے آخرت میں ان کے اعمال تباہ و برباد ہو جائیں گے اور انھیں ان اعمال کا کچھ بھی اجر نہیں ملے گا۔ مزید دیکھیے سورۂ فرقان (۲۳) اور سورۂ نور( ۳۹، ۴۰) ہاں کفار کو دنیا ہی میں ان کے اچھے اعمال کا بدلہ مل جائے گا۔ دیکھیے سورۂ احقاف (۲۰) ’’صِرٌّ ‘‘ شدید ٹھنڈی ہوا جو کھیتوں کو جلا دے۔ واضح رہے کہ قرآن میں عموماً ’’رِيْحٌ‘‘ کا لفظ عذاب کے لیے استعمال ہوا ہے اور ”رِيَاحٌ“ جمع کا لفظ رحمت کے لیے۔ ( مفردات) سورۂ یونس (۲۲) میں ’’رِيْحٌ‘‘ کا لفظ موافق ہوا کے لیے آیا ہے :﴿وَ جَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَةٍ ﴾ دوسرے مقامات پر عذاب کی ہوا کے لیے آیا ہے۔ 2۔ وَ مَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ:یعنی ان کے اعمال جو ضائع اور برباد ہوئے یہ اس وجہ سے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ظلم کیا ہے، بلکہ خود ان کے اپنے اوپر ظلم کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ انھوں نے نہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں اور کتابوں کی تصدیق کی اور نہ خالص اللہ تعالیٰ کے لیے عمل کیے، بلکہ ریاکاری کرتے رہے۔