وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ
اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں پہلے درجہ کا مسلمان بنوں
1۔ وَ اُمِرْتُ لِاَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ الْمُسْلِمِيْنَ : ’’ لِاَنْ اَكُوْنَ ‘‘ میں لام ’’باء‘‘ کے معنی میں ہے : ’’أَيْ أُمِرْتُ بِأَنْ أَكُوْنَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِيْنَ‘‘ یعنی اللہ کا پیغام پہنچانے والے کی حیثیت سے میرا کام صرف یہ نہیں کہ اس کا پیغام پہنچا دوں، بلکہ مجھے حکم ہے کہ اس کی فرماں برداری کرنے والوں میں سب سے پہلا فرماں بردار میں بنوں۔ میں ان جابر بادشاہوں کی طرح نہ بنوں جو لوگوں کو کئی کاموں کا حکم دیتے ہیں، مگر خود وہ کام نہیں کرتے، بلکہ میں تمھیں اللہ کے جو احکام پہنچاؤں، سب سے پہلے خود ان پر عمل کروں۔ 2۔ ’’ لِاَنْ اَكُوْنَ ‘‘ میں ’’لام‘‘ علت بیان کرنے کے لیے بھی ہو سکتا ہے، اس صورت میں دونوں آیات کا ترجمہ اس طرح ہو گا، کہہ دے مجھے تو حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں، اس حال میں کہ دین کو اسی کے لیے خالص کرنے والا ہوں اور مجھے یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ میں تمام مسلمانوں میں سب سے پہلا بنوں (کیونکہ دین میں پیش قدمی اخلاص ہی سے حاصل ہوتی ہے)۔ مفسر ابو السعود نے کہا : ’’وَ أُمِرْتُ بِذٰلِكَ لِأَجَلِ أَنْ أَكُوْنَ مُقَدِّمَهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ لِأَنَّ إِحْرَازَ قَصَبِ السَّبْقِ فِي الدِّيْنِ بِالْإِخْلَاصِ فِيْهِ ‘‘