يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ
اے داؤد ! ہم نے آپ کو زمین کا حکم (١٣) بنایا ہے، پس آپ لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے مطابق فیصلہ کیجیے، اور خواہش نفس کی پیروی نہ کیجیے جو آپ کو اللہ کی راہ سے برگشتہ کر دے، جو لوگ اللہ کی راہ سے برگشتہ ہوجائیں گے ان کو اس وجہ سے سخت عذاب ہوگا کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا تھا
1۔ يٰدَاؤدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ ....: یہاں لفظ ’’قُلْنَا‘‘ (ہم نے کہا) محذوف ہے، یعنی ہم نے کہا اے داؤد! تمھارا مقام دوسرے لوگوں سے بہت بلند ہے، تم خلیفہ ہو اور وہ رعایا ہیں، تم حاکم ہو اور وہ محکوم ہیں۔ اس لیے لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور اس میں اپنی یا کسی دوسرے کی خواہش کا دخل نہ آنے دو، کیونکہ یہی چیز اللہ کی راہ سے بہکانے والی ہوتی ہے۔ 2۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ ....: یعنی انسان بہکتا اسی وقت ہے جب اپنی یا کسی کی خواہش نفس کے پیچھے لگتا ہے اور یہ کام وہ تبھی کرتا ہے جب اسے حساب کا دن یاد نہ رہے۔ اگر اللہ کے سامنے جواب دہی کا تصور آنکھوں کے سامنے رہے تو انسان اپنی یا کسی کی خواہش کی پروا نہیں کرتا اور جو شخص یوم حساب کو بھول جائے وہ اپنی ہر جائز و ناجائز خواہش کے پیچھے چلے گا اور شتر بے مہار کی طرح زندگی گزارے گا۔ جس کا نتیجہ اسے شدید عذاب کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ 3۔ بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے داؤد علیہ السلام سے خطاب ’’وَ لَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى ‘‘ (خواہش کی پیروی نہ کر) سے نکالا ہے کہ داؤد علیہ السلام کسی خواہش کی پیروی کر بیٹھے تھے، اس پر یہ حکم ہوا۔ حالانکہ خواہش کی پیروی سے تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی منع کیا گیا ہے، تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کسی خواہش کی پیروی کر بیٹھے تھے۔ کسی کام سے منع کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مخاطب وہ کام کر چکا ہے یا کر رہا ہے، بلکہ آئندہ محتاط رہنے کی تاکید کے لیے بھی حکم ہوتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَ اَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ ﴾ [ المائدۃ : ۴۹ ] ’’اور یہ کہ ان کے درمیان اس کے ساتھ فیصلہ کر جو اللہ نے نازل کیا ہے اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کر۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۱۴۷ ] ’’یہی تیرے رب کی طرف سے حق ہے، پس تو ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔‘‘ اور فرمایا : ﴿فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ ﴾ [ الأنعام : ۳۵ ] ’’پس تو جاہلوں میں سے ہرگز نہ ہو۔‘‘ سورۂ قصص میں ہے : ﴿ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِيْرًا لِّلْكٰفِرِيْنَ﴾ [ القصص : ۸۶ ] ’’سو تو ہرگز کافروں کا مددگار نہ بن۔‘‘ اور اس سے اگلی آیت میں ہے : ﴿ وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ﴾ [ القصص : ۸۷ ] ’’اور ہر گز مشرکوں سے نہ ہو۔‘‘ تو کیا ان آیات سے یہ سمجھا جائے کہ (نعوذ باللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کاموں سے اس لیے روکا گیا کہ آپ یہ سب کچھ کر رہے تھے۔