سورة ص - آیت 4

وَعَجِبُوا أَن جَاءَهُم مُّنذِرٌ مِّنْهُمْ ۖ وَقَالَ الْكَافِرُونَ هَٰذَا سَاحِرٌ كَذَّابٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور انہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ ان کے پاس انہی میں سے ایک ڈرانے والا آگیا، اور کافروں نے کہا، یہ آدمی تو جادو گر اور پکا جھوٹا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ عَجِبُوْا اَنْ جَآءَهُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْهُمْ : یعنی انھیں اس بات پر تعجب ہو رہا ہے کہ ان کے پاس ڈرانے اور خبردار کرنے کے لیے اسے بھیجا گیا جو ان کی جنس انسان سے ہے، ان کی قوم عرب سے ہے اور ان کے قبیلے قریش سے ہے، حالانکہ عجیب بات تو اس وقت ہوتی جب کوئی فرشتہ یا عجمی ان کی طرف بھیجا جاتا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۶۴)، توبہ (۱۲۸) اور سورۂ یونس (۲) کی تفسیر۔ وَ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ هٰذَا سٰحِرٌ كَذَّابٌ: ’’كَفَرَ يَكْفُرُ‘‘ کا معنی انکار بھی ہے اور چھپانا بھی۔ یہاں ’’وَقَالُوْا‘‘ (اور انھوں نے کہا) کے بجائے ’’وَ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ‘‘ (اور کافروں نے کہا) کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحر اور کذّاب کہنا محض ان کے حق کو چھپانے اور جانتے بوجھتے ہوئے اس کے انکار کی وجہ سے ہے، ورنہ یہ تو آپ کو صادق اور امین کہتے تھے۔ دیکھیے سورۂ یونس کی آیت (۱۶) : ﴿ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ﴾ اور سورۂ انعام (۳۳) کی تفسیر۔