سورة ص - آیت 3

كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ فَنَادَوا وَّلَاتَ حِينَ مَنَاصٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ہم نے ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک (٢) کردیا، تب وہ پکار اٹھیں، اور وہ وقت چھٹکارا پانے کا نہیں تھا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ قَرْنٍ : اس آیت میں قریش اور اس امت کے تمام کفار کو پہلی امتوں کے تکبرّ اور انکار کے انجام بد سے ڈرایا ہے۔ ’’ اَهْلَكْنَا ‘‘ جمع متکلم کا لفظ اپنی عظمت کے اظہار کے لیے لائے ہیں۔ ’’ قَرْنٍ ‘‘ زمانے کی اتنی مدت جس میں ایک دوسرے سے ملنے والی ایک نسل ختم ہو جائے۔ راجح قول کے مطابق یہ مدت سو سال ہے، مراد ایک زمانے کے لوگ ہیں۔ ’’ كَمْ ‘‘ خبریہ ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی نسلوں اور قوموں کو ہلاک کر دیا۔ فَنَادَوْا وَّ لَاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ : ’’ لَاتَ ‘‘ ’’لَا‘‘ نافیہ ہی ہے، جس پر مبالغہ کے لیے ’’تاء‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ ہمیشہ لفظ ’’ حِيْنَ ‘‘ یا وقت کا معنی دینے والے الفاظ پر آتا ہے۔ اس کا اسم محذوف ہے اور ’’ حِيْنَ مَنَاصٍ ‘‘ اس کی خبر ہے۔ گویا عبارت یہ ہے : ’’وَلَاتَ الْحِيْنُ حِيْنَ مَنَاصٍ‘‘ ’’مَنَاصٍ‘‘ ’’نَاصَ يَنُوْصُ نَوْصًا‘‘سے مصدر میمی ہے۔ اس کا معنی ”فَرَّ مِنْ فُلَانٍ“ کسی سے بھاگ جانا بھی ہے اور ’’نَجَا وَ فَاتَ‘‘ (بچ کر نکل جانا بھی) مطلب یہ ہے کہ جب ان قوموں نے ہماری طرف سے آنے والی ہلاکت اور عذاب کی نشانیوں کو دیکھا تو انھوں نے پکارا، یعنی مدد کے لیے اور ہلاکت سے بچانے کے لیے پکارا اور ایمان لانے کا اقرار کیا مگر وہ وقت ہمارے عذاب سے بھاگنے یا بچ نکلنے کا نہیں تھا، کیونکہ ہمارا قاعدہ ہے کہ جب ہمارا عذاب آ جائے تو پھر ایمان لانے یا توبہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس آیت کی ہم معنی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ مؤمنون (۶۴، ۶۵)، مؤمن (۸۴، ۸۵) اور انبیاء (۱۱ تا ۱۳)۔