سورة الفاتحة - آیت 4

مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

قیامت کے دن کا مالک ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ: ’’ الدِّيْنِ ‘‘ ’’دَانَ يَدِيْنُ‘‘ کا مصدر ہے، بدلہ دینا، جزا دینا۔ رحمن و رحیم کے بعد جزا کے دن کا مالک ہونے کی صفت بیان فرمائی۔ ایک قراء ت ﴿مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ﴾ ہے یعنی روزِ جزا کا مالک اور دوسری ’’مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ‘‘ ہے، یعنی روز جزا کا بادشاہ۔ قرآن مجید کے رسم الخط میں ’’ مٰلِكِ ‘‘ لکھا ہے، اسے ’’ مَالِكِ ‘‘ اور ’’مَلِكِ‘‘ دونوں طرح پڑھا جا سکتا ہے اور دونوں قراء تیں متواتر طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا مالک بھی ہے اور بادشاہ بھی۔ ’’ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ‘‘ کے ساتھ قیامت کے دن کے مالک اور بادشاہ ہونے کی مناسبت یہ ہے کہ بعض اوقات کوئی بہت رحم کرنے والا ہوتا ہے مگر اس کی ملکیت میں کچھ نہیں ہوتا، اس لیے وہ چاہتے ہوئے بھی رحم نہیں کر سکتا، پھر کوئی شخص بہت سی ملکیت کا مالک ہوتا ہے مگر اس کا بادشاہ کوئی اور ہوتا ہے، وہ مالک ہوتے ہوئے بھی پورا اختیار نہیں رکھتا۔ ’’يَوْمِ الدِّيْنِ ‘‘ کے معنی یوم جزا کے ہیں ۔ اس دنیا میں بھی مکافات یعنی اعمال کی جزا کا سلسلہ جاری رہتا ہے، مگر اس جزا کا مکمل ظہور چونکہ قیامت کے دن ہو گا اس لیے قیامت کے دن کو خاص طور پر ’’يَوْمِ الدِّيْنِ‘‘ (بدلے کا دن) کہا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس دن کے ’’مَالِك‘‘ اور ’’مَلِك‘‘ (بادشاہ) ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس روز ظاہری طور پر بھی مالکیت اور ملوکیت کا یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا، فرمایا : ﴿يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْـًٔا وَ الْاَمْرُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ ﴾ [ الانفطار : ۱۹ ] ’’جس دن کوئی جان کسی جان کے لیے کسی چیز کی مالک نہیں ہو گی اور اس دن حکم صرف اللہ کا ہو گا۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ﴾ [ المؤمن : ۱۶ ] ’’آج بادشاہی کس کی ہے؟ اللہ ہی کی جو ایک ہے، دبدبے والا ہے۔‘‘ اس دن مالک بھی اللہ تعالیٰ ہو گا، بادشاہ بھی وہی ہو گا، اور حکم بھی صرف اسی کا چلے گا۔ صفت رحمت اور بدلے کے دن کی ملکیت میں مناسبت اس حدیث سے واضح ہوتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں ، جن میں سے اس نے ایک رحمت جن و انس، جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کے درمیان نازل فرمائی ہے، اسی کے ساتھ وہ ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ وہ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ننانویں رحمتیں مؤخر کر رکھی ہیں ، جن کے ساتھ وہ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔‘‘ [مسلم، التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللّٰہ تعالٰی.... :19؍2752۔ بخاری : ۶۰۰۰، عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] 2۔تقسیم صلاۃ والی حدیث قدسی کے مطابق بندہ جب ﴿مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ﴾ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے(1) : (( مَجَّدَنِيْ عَبْدِيْ )) ’’میرے بندے نے میری تمجید (بزرگی بیان) کی۔‘‘ (2)ایک روایت کے مطابق فرماتا ہے : (( فَوَّضَ اِلَيَّ عَبْدِيْ )) ’’میرے بندے نے اپنا سب کچھ میرے سپرد کر دیا۔‘‘ [ مسلم، الصلوۃ، باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ .... : ۳۹۵ ] قرآن مجید میں تمجید الٰہی اور تفویض و توکل پر مشتمل تمام آیات ’’ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ ‘‘ کی تفصیل ہیں ۔