فَاسْتَفْتِهِمْ أَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُونَ
پس اے میرے نبی ! ذرا آپ اہل مکہ سے پوچھئے کہ کیا آپ کے رب کے لئے بیٹیاں (٣٣) ہیں اور ان کے لئے بیٹے ہیں
فَاسْتَفْتِهِمْ اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ ....: پچھلی آیات کے ساتھ ان آیات کی مناسبت یہ ہے کہ مشرکین کے بد ترین عقائد میں سے ایک قیامت کا انکار تھا اور ایک شرک تھا، جس کی ایک صورت فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کے بت بنا کر ان کی پرستش کرنا تھی۔ قرآن میں متعدد مقامات پر ان کے اس عقیدے کا ذکر کر کے اس کی تردید کی گئی ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۱۱۷)، نحل (۵۷، ۵۸)، بنی اسرائیل (۴۰)، زخرف (۱۶ تا۱۹) اور نجم (۲۱ تا ۲۷) یہاں سورت کے شروع میں ان کے انکارِ قیامت پر فرمایا : ﴿فَاسْتَفْتِهِمْ اَهُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمْ مَّنْ خَلَقْنَا اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِيْنٍ لَّازِبٍ ﴾ [ الصافات : ۱۱ ] ’’سو ان سے پوچھ کیا یہ پیدا کرنے کے اعتبار سے زیادہ مشکل ہیں، یا وہ جنھیں ہم نے پیدا کیا؟ بے شک ہم نے انھیں ایک چپکتے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے۔‘‘ اب دوسرے عقیدے کی تردید کرتے ہوئے فرماما : ﴿ فَاسْتَفْتِهِمْ اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَ لَهُمُ الْبَنُوْنَ ﴾ ’’پس ان سے پوچھ کیا تیرے رب کے لیے بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے؟‘‘ زمخشری نے فرمایا : ’’اس کا عطف سورت کے شروع میں ’’ فَاسْتَفْتِهِمْ اَهُمْ اَشَدُّ خَلْقًا ‘‘ پر ہے، اگرچہ ان کے درمیان بہت فاصلہ ہے۔‘‘ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہوئے وہ تین ظلم کر رہے تھے، ایک یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دے رہے تھے، حالانکہ وہ اس سے پاک ہے، کیونکہ یہ عجز اور محتاجی کی دلیل ہے۔ دوسرا یہ کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں قرار دیں، جب کہ اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ انھوں نے اللہ کے مقرب فرشتوں کو مؤنث قرار دیا، حالانکہ وہ مذکر و مؤنث کی تفریق سے پاک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب باتوں پر ان کا رد فرمایا اور سخت غصے کا اظہار فرمایا، چنانچہ فرمایا : ’’ان سے پوچھو کہ کیا تیرے رب کے لیے بیٹیاں اور ان کے لیے بیٹے ہیں؟‘‘ ان کا اپنا حال یہ ہے کہ بیٹی کی خبر پر ان کا چہرہ سیاہ ہو جاتاہے اور اسے زندہ درگور کرنے کی فکر کرنے لگتے ہیں اور اپنے لیے اتنی ناگوار بات کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتے ہیں۔