إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ
بے شک (اللہ کا) پہلا گھر (69) جو لوگوں کے لیے بنایا گیا، وہ ہے جو مکہ میں ہے، اور تمام جہان والوں کے لیے باعث برکت و ہدایت ہے
اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ....: یہ یہود کے دوسرے شبہ کا جواب ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے شام کی طرف ہجرت کی اور ان کی اولاد میں سے تمام انبیاء شام میں ہوئے، ان کا قبلہ بیت المقدس تھا اور مسلمانوں نے اس قدیم قبلہ کو چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ بنا لیا ہے، پھر یہ ملتِ ابراہیم کے متبع کیسے ہو سکتے ہیں؟ قرآن نے بتایا کہ دنیا میں سب سے پہلا عبادت خانہ تو کعبہ ہے، جو ’’بکہ‘‘ میں ہے۔ بکہ مکہ ہی کا نام ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے شرفِ قبولیت بخشا۔ اس پر بہت سے واضح دلائل موجود ہیں۔ جن میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ دورِ جاہلیت سے یہ محترم چلا آ رہا ہے کہ اگر کسی کے باپ کا قاتل بھی اس میں داخل ہو جائے تو وہ اس سے تعرض نہیں کرتا، نیز اس میں مقامِ ابراہیم، یعنی وہ پتھر ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کے بانی ابراہیم علیہ السلام ہیں اور یہ کہ یہی ابراہیمی قبلہ ہے، کیونکہ بیت المقدس کی تعمیر کعبۃ اللہ سے چالیس برس بعد ہوئی۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا:’’اے اللہ کے رسول ! روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟‘‘ آپ نے فرمایا:’’مسجد حرام۔‘‘ پوچھا:’’پھر کون سی ؟‘‘ آپ نے فرمایا:’’مسجد اقصیٰ۔‘‘ پوچھا:’’ان دونوں کے درمیان کتنی مدت ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا:’’چالیس سال۔‘‘ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، بابٌ:۳۳۶۶ ]