وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَٰؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اور (اللہ نے) آدم کو تمام (٦٩) نام سکھا دئیے۔ پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش (٧٠) اور کہا کہ مجھے ان کے نام (٧١) بتا ؤاگر تم سچے ہو۔
1۔ کسی ورکشاپ کی ذمہ داری سپرد کرتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کے اوزاروں کا علم کون رکھتا ہے، ظاہر ہے کہ انھیں وہی استعمال کر سکتا ہے جو کم از کم ان کا نام جانتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کی اشیاء کے نام آدم علیہ السلام کو سکھائے اور فرشتوں پر واضح کیا کہ زمین کی خلافت کے لیے صرف تسبیح و تقدیس کافی نہیں بلکہ علم اسماء بھی ضروری ہے جو آدم کو عطا کیا گیا ہے، فرشتوں کو نہیں ۔ رہی یہ بات کہ فرشتوں کو یہ علم کیوں نہیں دیا گیا اور انھیں زمین کی خلافت کیوں نہیں سونپی گئی تو اس کی حکمت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، فرمایا : ﴿ اِنِّيْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ ”بے شک میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔“ 2۔اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا علم جزوی ہے اور وہ مقرب ہونے کے باوجود علم غیب نہیں رکھتے۔ غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔دیکھیے سورۃ النمل (۶۵) عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ’’جو شخص تمھیں کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے تھے تو بلاشبہ اس نے جھوٹ کہا، اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔‘‘ [ بخاری، التوحید، باب ﴿عالم الغیب فلا یظہر علی غیبہ أحدًا ....﴾ : ۷۳۸۰ ]