سورة الصافات - آیت 28

قَالُوا إِنَّكُمْ كُنتُمْ تَأْتُونَنَا عَنِ الْيَمِينِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کہیں گے، تم ہمیں بھلائی اور خیر خواہی کے نام سے بہکاتے تھے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالُوْا : یعنی کمزور اور پیروی کرنے والے اپنے سرداروں اور گمراہ کرنے والوں سے کہیں گے۔ 2۔ اِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْيَمِيْنِ : ’’ الْيَمِيْنِ ‘‘ کا معنی قسم بھی ہے، دایاں ہاتھ بھی اور دائیں جانب بھی۔ اگر اس کا معنی قسم لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ تم ہی قسم کی راہ سے ہمارے پاس آتے تھے، یعنی قسمیں کھا کھا کر اپنے آپ کو ہمارا خیرخواہ ظاہر کرتے تھے اور اگر اس کا معنی دایاں ہاتھ لیا جائے تو اس سے مراد قوت ہو گی، کیونکہ اہل عرب یمین بول کر قوت مراد لیتے ہیں۔ مطلب یہ ہوگا کہ تم زور اور قوت دکھلا کر ہمیں مرعوب کرتے تھے اور بہکانے کے لیے ہم پر چڑھ دوڑا کرتے تھے اور اگر دائیں جانب معنی ہو تو مراد خیر اور نیکی کی جانب ہو گی اور مطلب یہ ہوگا کہ تم آکر ہمیں خیرخواہی، نیکی اور دین حق کی راہ سے بہکاتے تھے اور کہتے تھے کہ جس چیز کا ہم تمھیں حکم دے رہے ہیں نیکی اور حق وہی ہے۔ آیت کے الفاظ میں بیک وقت تینوں معنوں کی گنجائش ہے اور یہ کلام اللہ کا اعجاز ہے، کیونکہ ان کے سردار گمراہ کرنے کے یہ تینوں طریقے استعمال کرتے تھے۔ کمزور لوگوں کا مقصد اپنی گمراہی کی پوری ذمہ داری سرداروں پر ڈالنا ہو گا، تاکہ عذاب سے کسی طرح بچ سکیں۔