سورة يس - آیت 52

قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا ۜ ۗ هَٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کہیں گے، اے ہماری بردباری ! ہمیں ہماری قبروں سے کس نے اٹھایا ہے، رحمن نے اسی کا تو وعدہ کیا تھا، اور رسولوں نے سچ کہا تھا

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالُوْا يٰوَيْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا : یعنی اس وقت انھیں یہ احساس نہیں ہو گا کہ وہ مر چکے تھے اور اب زندہ کیے گئے ہیں، بلکہ سمجھیں گے کہ ہم سوئے ہوئے تھے اور کسی نے ہمیں جگا دیا ہے۔ گزری ہوئی لمبی مدت انھیں ایک لمحہ معلوم ہو گی۔ مزید دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۵۲) اور روم (۵۵)۔ هٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَ صَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ : یہاں یہ ذکر نہیں کہ یہ بات کون کہے گا، عین ممکن ہے کہ خود ہی ان کی سمجھ میں آ جائے کہ یہ تو وہی قیامت ہے جو رسول ہمیں بتایا کرتے تھے اور ہم اسے جھٹلاتے تھے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مومن یا فرشتے انھیں یہ بات کہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مستقبل کو حاضر قرار دے کر اب یہ جواب دے رہے ہوں۔ 3۔ یہاں لفظ ’’ الرَّحْمٰنُ ‘‘ صرف اس کا وعدہ یاد دلانے کے لیے نہیں، بلکہ یہ بتانے کے لیے ہے کہ اس خوف ناک دن میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ننانوے حصوں کے وہ جلوے نظر آئیں گے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتے، جیسا کہ فرمایا : ﴿اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ ﴾ [ الفرقان : ۲۶ ] ’’اس دن حقیقی بادشاہی رحمان کی ہو گی۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ خَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ ﴾ [ طٰہٰ : ۱۰۸ ] ’’اور سب آوازیں رحمان کے لیے پست ہو جائیں گی۔‘‘