سورة يس - آیت 45

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّقُوا مَا بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم اس عذاب سے ڈرو (٢٤) جو تمہارے آگے آنے والا ہے، اور جو تمہارے پیچھے گذر چکا ہے، تاکہ تم پر رحم کیا جائے (تو وہ دھیان نہیں دیتے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّقُوْا مَا بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ ....: کائنات میں پھیلی ہوئی توحید اور آخرت کی نشانیوں اور دلیلوں کے ذکر کے بعد، جن سے مشرکین نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، اب نصیحت کرنے والوں کے ساتھ ان کے سلوک کا ذکر فرمایا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انھوں نے خیر خواہی کی ہر بات سے بھی کان بند کر رکھے ہیں۔ ’’مَا بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ‘‘سے مراد پہلے گناہ اور ’’ وَ مَا خَلْفَكُمْ ‘‘ سے مراد بعد کے گناہ ہیں، یا ’’ مَا بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ‘‘سے مراد دنیا کا عذاب اور ’’ وَ مَا خَلْفَكُمْ‘‘سے مراد آخرت کا عذاب ہے۔ یعنی جب ان سے ان گناہوں سے بچنے کے لیے کہا جاتا ہے جو وہ کر چکے ہیں کہ ان پر نادم ہو جاؤ، ان سے توبہ کر لو اور آئندہ کے لیے ان سے بچ جاؤ، یا جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس عذاب سے بچ جاؤ جو تمھارے گناہوں کی پاداش میں تم پر دنیا میں آ سکتا ہے اور اس سے بھی جو آخرت میں آ رہا ہے، تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔ اس جملے کا جواب یہ ہے ’’أَعْرَضُوْا عَنْهُ‘‘ یعنی وہ اس نصیحت سے منہ پھیر لیتے ہیں، مگر یہاں یہ جواب حذف کر دیا گیا ہے، کیونکہ یہ اگلی آیت سے خود بخود معلوم ہو رہا ہے۔