سورة يس - آیت 40

لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

نہ آفتاب کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ ماہتاب کو جا لے، اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے، اور ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں تیر رہے ہیں

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

لَا الشَّمْسُ يَنْۢبَغِيْ لَهَا اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ: یہ چوتھی دلیل ہے، یعنی چاند کی روشنی کے ظہور کا وقت رات ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ رات کو جب چاند چمک رہا ہو تو اچانک سورج طلوع ہو جائے۔ وَ لَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ: اور نہ یہ ہو سکتا ہے کہ ابھی دن کا وقت باقی ہو اور یکایک رات چھا جائے۔ وَ كُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ : ’’سَبَحَ يَسْبَحُ‘‘ (ف) کا معنی تیرنا ہے۔ یعنی کیا سورج، کیا چاند اور کیا ستارے (جن میں زمین بھی شامل ہے) ہر ایک کا اپنا اپنا فلک (مدار) ہے، جس میں وہ تیر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اربوں ستاروں میں سے ہر ایک کا مدار دوسرے سے الگ بنایا ہے اور ایسا نظام قائم کیا ہے کہ کوئی ستارہ دوسرے کے مدار میں آکر اس سے ٹکراتا نہیں، بلکہ باقاعدگی سے اپنے مدار میں گھوم رہا ہے اور یہ نظام قیامت تک چلتا رہے گا۔ یقیناً یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نشانی ہے۔ 4۔ ان آیات کا اصل مقصد علم ہیئت کے حقائق بیان کرنا نہیں، بلکہ انسان کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھے اور عقل سے کام لے تو زمین سے لے کر آسمان تک جدھر بھی وہ نگاہ ڈالے گا اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی یکتائی کے بے حد و حساب دلائل آئیں گے اور کہیں کوئی ایک دلیل بھی دہریت اور شرک کے ثبوت میں نہ ملے گی۔ ہماری یہ زمین جس میں نظام شمسی بھی شامل ہے، اس کی عظمت کا یہ حال ہے کہ اس کا مرکز سورج زمین سے تین لاکھ گنا بڑا ہے اور اس کے بعید ترین سیارے نیپچون کا فاصلہ سورج سے کم از کم ۲ ارب ۷۹ کروڑ ۳۰ لاکھ میل ہے۔ بلکہ اگر پلوٹو کو بعید ترین سیارہ مانا جائے تو وہ سورج سے ۴ ارب ۶۰ کروڑ میل دور تک پہنچ جاتا ہے۔ اس عظمت کے باوجود یہ نظام شمسی ایک بہت بڑے کہکشاں کا محض ایک چھوٹا سے حصہ ہے۔ جس کہکشاں میں ہمارا یہ نظام شمسی شامل ہے اس میں تقریباً تین ہزار ملین (۳ ارب) آفتاب پائے جاتے ہیں اور اس کا قریب ترین آفتاب ہماری زمین سے اس قدر دور ہے کہ اس کی روشنی یہاں تک پہنچنے میں ۴ سال صرف ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہکشاں بھی پوری کائنات نہیں ہے، بلکہ اب تک کے مشاہدات کی بنا پر اندازہ کیا گیا ہے کہ یہ تقریباً بیس لاکھ لولبی سحابیوں میں سے ایک ہے اور ان میں سے قریب ترین سحابیے کا فاصلہ ہم سے اس قدر زیادہ ہے کہ اس کی روشنی دس لاکھ سال میں ہماری زمین تک پہنچتی ہے۔ رہے بعید ترین اجرام فلکی، جو ہمارے موجودہ آلات سے نظر آتے ہیں، ان کی روشنی تو زمین تک پہنچنے میں دس کروڑ سال لگ جاتے ہیں۔ اس پر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انسان نے ساری کائنات دیکھ لی ہے۔ (تفہیم القرآن) حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سلطنت ہیئت دانوں کے ان اندازوں بلکہ انسان کے خیال سے بے حدو حساب وسیع ہے۔ یہ ایک معمولی جھلک ہے جو انھیں دکھائی دی ہے۔